موہن بھگوات نے ان علاقوں تک بھی رسائی کرلی جہاں پر حکومت کے اقتصادی پالیسیوں کے سبب این ڈی اے کے ساتھ گرمی کی شدت کا احساس ہے
نئی دہلی۔ سال 2019کے عام انتخابات پر پڑنے والے اثر اور ہندو وٹوں کی تقسیم کے خدشات کے پیش نظر راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ( آر ایس ایس)کے سربراہ موہن بھگوات سنگھ کے ذات پات کے نظریہ کے مغائیر تحریک کی نگرانی کررہے ہیں۔سنگھ کو منظم ہندو وٹ بینک کے بکھرجانے کے خدشات لاحق ہیں۔فبروری میں بھگوات نے بہار کا د س روزہ دورہ کیا او راترپردیش میں ایک ہفتہ گذارا‘ تاکہ دو نوآبادیاتی ریاستوں جہاں پر ذات پات کاماحول بڑا ہے وہاں پر اس کے سیاسی اثر کو کم کیاجاسکے ۔اتوار کے روز یوپی کے میرٹھ میں آر ایس ایس سربراہ جنھوں نے سب سے بڑی کیڈر کو خطاب کیا ان کی تقریر کا محور ذات پات کے فرق کے سبب ہندؤوں کے بے دخلی تھا۔انہو ں نے کہاکہ’’ ہندو کو متحد ہونے کی ضروری ہے۔
سماج میں تشدد اور ذات پات کے نام پر تقسیم اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے جس کے سبب اتحاد کو خطرہ ہے اور اس کاکچھ طاقتیں فائدہ اٹھارہی ہیں‘‘۔ موہن بھگوات کی تقرر کا مرکز توجہہ سماجی استحکام تھا مگر وہ اونا میں دلتوں پر ہوئے حملے کے سبب رونما ہونے والے جگنیش میوانی جیسے دلت لیڈر کے برسراقتدار آنے اور یوپی کے سہارنپور میں دلت راجپوت کے درمیان تصادم کے منظر عام پر آنے والی بھیم آرمی کے سب تشویش میں دیکھائی دے رہے تھے۔
آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ ان گروپس کو پردے کے پیچھے سے ’’الٹر لفٹ‘‘ کی حمایت حاصل ہے۔آر ایس ایس سربراہ ان حصوں تک بھی پہنچے جہاں حکومت کی معاشی پالیسیوں‘ کسانوں کے مسائل کے علاوہ چھوٹے اور میڈیم کلاس کاروباریوں کو درپیش مسائل کے سبب این ڈی اے میں شامل جماعتوں کی حکومت کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اترپردیش میں سنگھ کے ایک سینئر منتظم نے کہاکہ ’’ پچھلے کچھ سالوں سے سماجی ہم آہنگی کی پہل کے طور پر دلت گھر والوں کے درمیان میں تہوار کا انعقاد‘ منادر میں دلت او راوبی سی پجاریوں کا تقرر‘ اور عام لوگوں کو منادر کی طرف دھکیلنے ‘ گاؤں کے باؤلیوں پر سب کو اکٹھاکرنے کاکام کیاجارہا ہے۔
ان میں سے کچھ تو کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر قابل فکر بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور الٹرلفٹ کی جانب سے اپیلیں ان طبقات میں بے چینی پیدا کررہی ہیں‘‘۔ تاہم آ رایس یس ترجمان موہن ویدیا نے کہاکہ بھگوت کا دورے ایک سال قبل بنایاگیا منصوبے کا حصہ ہے اور تاکہ وہ زمینی سطح پر کام کرنے والے لوگوں سے ملاقات کرسکیں۔ مگر ان دوروں کی زمینی حقیقت کچھ اور ہی کہتی ہے کیونکہ سنگھ کی کوشش یہی رہی ہے کہ طبقے واری اساس پر پائی جانے والی بے چینی کودور کرتے ہوئے پسماندگی کاشکار طبقات کو ہندو ہونے کا احساس دلایاجاسکے اور بی جے پی کی مقبولیت کودرپیش خطرات کو دور کیاجاسکے۔
سال2014کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو دوبارہ دہرانے کے لئے یہ سب کیاجارہا ہے‘ آر ایس ایس نے اس وقت زمینی راے دہندوں کے درمیان میں بڑی مہم چلائی تھی۔پٹنہ یونیورسٹی کے ایک ٹیچر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ’’ بہار میں بڑھتے دلت مسلم اتحاد کی وجہہ سے گہری تشویش ہے‘ جو ایک مضبوط اتحادثابت ہوسکتا ہے‘ تاکہ جے ڈی (یو) کی مدد سے بی جے پی بمقابلہ آرجے ڈی سال2019کے انتخابات میں ہندو وٹ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا‘‘۔سنگھ او ر بی جے پی ہر حال میں پسماندہ طبقات کی حمایت حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ سنگھ او رپارٹی نے یادو کے بعد سب سے بڑی اوبی سی سماج کے کوریس اور کرماس کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔
آلہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر اشیش سکسینہ نے کہاکہ ’’ مذہب اور ذات پات بیک وقت کا مسئلہ نہیں ہے اور اب وہ مسئلہ سو فیصد نہیں رہا۔ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں ان لوگو ں کو زیادہ عہدے دے رہے ہیں جنھوں نے ان کی پارٹی کو جیت دلانے میں مدد کی تاکہ خود کو زیادہ سکیولر ثابت کرسکیں‘‘۔بنارس ہندو یونیورسٹی کے گیا ن پرکاش مشرا نے کہاکہ ’’ سال2025میں آر ایس ایس کے قیام کے سو سال ہونگے‘ دیہی سطح پر آرایس ایس کو مضبوط بنانے کے لئے بھی لوگوں کو سنگھ کی طرف متوجہ کیاجارہا ہے۔