یونیورسٹی آف حیدرآباد میں بائیں بازو او ردلت میں نفاق اے بی وی پی کی کامیابی کا سبب تو نہیں؟۔

اٹھ سال کے طویل عرصہ کے بعد اکھل بھارتیہ ویدیارتی پریشد( اے بی وی پی) نے حیدرآباد یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین الیکشن میں بڑی جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
حیدرآباد۔اٹھ سال کے طویل عرصہ کے بعد اکھل بھارتیہ ویدیارتی پریشد( اے بی وی پی) نے حیدرآباد یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین الیکشن میں بڑی جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

اس جیت کے ساتھ ہی طلبہ کے حوصلے بلند ہوگئے اور زیادہ تعلیمی اداروں میں قبضے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔حالانکہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں بائیں بازو اتحاد کی کامیابی کے بعد بھی دہلی یونیورسٹی میں اے بی وی پی نے جیت حاصل کی تھی۔

یونیورسٹی آف الہ آباد میں کانگریس او رسماج وادی پارٹی کے اتحادی تنظیم نے اے بی وی پی کو شکست فاش کیاہے۔

اب جبکہ ریاست تلنگانہ اسمبلی انتخابات ہیںیواو ایچ میں بھگوا طلبہ تنظیم نے اپنی کامیابی درج کرائی ہے۔

یونیورسٹی آف حیدرآباد دراصل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا( ایس ایف ائی) اور امبیڈکر اسٹوڈنٹ اسوسیشن 1993سے گڑھ مانا جاتا ہے اور دونوں کا کیمپس میں بڑا اثر ہے۔ آخری مرتبہ اے بی وی پی 2009تا2010میں یہاں پر جیت حاصل کی تھی۔

درایں اثناء یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ اے بی وی پی کی جیت میں ایس ایف ائی اور اے ایس اے کے علاوہ مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے درمیان کانظریاتی اختلاف ہے ۔

ٹھیک اسی طرح مسلم اسٹوڈنٹ فرنٹ‘ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن اور ٹھیک اسی طرے نیشنل اسٹوڈنٹ آف انڈیا کے درمیان بھی تال میل ٹھیک نہیں رہا ہے۔

اے ایس اے نے فیصلہ لی اکہ این ایس یو ائی‘ ایم ایس ایف ‘ ایس ائی اور دیگر قبائلی بہوجن تنظیم کے ساتھ اتحاد کرے گی ۔

تاہم ایس ایف ائی نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایم ایس ایف ‘ ایس ائی او اور این ایس یو ائی اس کا حصہ بنے اور علیحدہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا‘ جس کی وجہہ سے مخالف اے بی وی پی ووٹ بکھر گئے۔

اے بی وی پی کی کامیابی پر بی جے پی قائدین نے انہیں ٹوئٹر کے ذریعہ مبارکباد پیش کی ہے۔

ٹوئٹر کے ذریعہ مبارکباد دینے والوں میں پٹرولیم منسٹر دھرمیندر پردھان ‘ نیشنل سکریٹری بی جے پی پی مرلی دھر راؤ‘ رام لال ‘ بی جے پی کے سابق ریاستی صدر جی کشن ریڈی اور بی جے وائی ایم کے قومی نائب صدر ٹھاکر رنجیت داس بھی شامل ہیں۔