یشونت سنہا پارٹی سے ہٹ کر ’نیشنل فورم‘ تشکیل دے رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدوں او راہم قومی مسائل کو زیر بحث لانے کے عام انتخابات سے 16ماہ قبل تشکیل دئے گئے منچ سے کافی امیدیں ہیں۔

نئی دہلی۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق فینانس و خارجی امور کے وزیریشونت سنہا نے قومی سطح کا ’’ نیشنل فورم‘‘ تشکیل دے رہے ہیں تاکہ ان کے مطابق ایسے مسائل کو زیربحث لایاجائے جن وقت پر حل نہیں کیاجارہا ہے۔

مذکورہ فورم’’ راشٹریہ منچ‘‘ کے نام سے موسوم ہے جس میں کانگریس کے منیش تیواری‘ عام آدمی پارٹی سے اشوتوش اور اشیش کھیتان‘ پون ورما جنتا دل ( یونائٹیڈ)‘ گھنشام تیواری سماج وادی پارٹی ‘ دنیش تیواری ترنمول کانگریس‘ماجد میمن این سی پی اس کے علاوہ کسانوں کی بہت ساری تنظیمیں اس میں شامل ہیں۔مہاتماگاندھی کے 70ویں برسی کے موقع پر جنوری کے روز دہلی میں فورم کی تشکیل عمل میں ائے گی۔

یہ بات تو صاف ہے کہ سنہا کی حکومت پر تنقیدیں فورم کی ممبرشپ میں اضافے کا سبب بنیں گی۔ حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدوں او راہم قومی مسائل کو زیر بحث لانے کے عام انتخابات سے 16ماہ قبل تشکیل دئے گئے منچ سے کافی امیدیں ہیں۔

اسی طرح جو لوگ فورم میں شامل ہیں ان کی ریاستی امور میں اپنی پارٹی کے خلاف جاکر کام کرنے والوں کے طور پر پہچان بنی ہوئی ہے۔ جے ڈی (یو) کے پاؤن ورما کا شمار وزیراعظم نریندر مودی پر سخت تنقیدیں کرنے والے میں کیاجاتا ہے جبکہ ان کی پارٹی کے چیف منسٹر نتیش کمار بی جے پی سے ہاتھ ملائے ہوئے ہیں۔

اسی طرح عآپ کے اشوتوش جنھوں نے اپنے صحافتی کیریر کو بلائے طاق پر رکھ کرارویند کجریوال سے ہاتھ ملایاہے حالیہ راجیہ سبھا کے لئے تین دولت مندوں کو پارٹی کا ٹکٹ دینے پر اپنی ہی پارٹی سے ناراض چل رہے ہیں۔ اورایک جنھوں نے حال ہی میں کانگریس چھوڑ کر عآپ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔منچ نے کسی سے بھی اپنے پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے کو چھوڑنے کے لئے نہیں کہا ہے۔

سمجھا جارہا ہے کہ ایک ذہن کے لوگوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کے لئے ایک پلیٹ فارم تیار کیاگیا ہے۔ کسی نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہو ں نے کہاکہ اس کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا۔بجٹ اجلاس کی شب ہی فورم کی لانچنگ کا مطالب یہ ہے کہ ابتدائی دور سے فورم حکومت کے خلاف کام کرنا شروع کردے گا۔

سنہا کے بطور سابق فینانس منسٹر ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ایسے مسائل زیر بحث لائے جائیں گے کہ جو معیشت سے جڑے ہوں اور جی ایس ٹی‘ نوٹ بندی کے اثرات اور کیاوزیراعظم کے ڈاوس دورے کے بعد ایف ڈی ائی کو متاثر کیاجاسکے گا یا اس کے نتائج کا انتظار کرنا پڑیگا۔