یاتین اوزا کا دعویٰ ، مجلس اور بی جے پی میں بھونچال

مودی کے خلاف الیکشن لڑنے والے اوزا ، امیت شاہ کے دست خاص تک کا سفر
حیدرآباد۔12جولائی( سیاست نیوز ) شاہ۔اویسی معاہدے کے انکشاف کے بعد مجلس اور بی جے پی دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کیا جانے لگا ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین کی جانب سے یاتین اوزا کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے چراغ پا ہو گئے ۔ صدر مجلس نے یاتین اوزا کے دعوے کو لغو قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کا انتباہ دیا تو بھارتیہ جنتا پارٹی ترجمان بھرت پانڈیا نے اب تک اختیار کردہ خاموشی پر برسنے لگے اور کہا کہ یاتین اوزا ایک نا قابل اعتبار شخص ہیں۔ یاتین اوزا جو کہ 2002گجرات انتخابات کے دوران کانگریس کے ٹکٹ پر نریندر مودی کے خلاف ان کے حلقہ اسمبلی منی نگر سے مقابلہ کر چکے ہیں نے گزشتہ یوم تحریری مکتوب جاری کرتے ہوئے اویسی ۔ شاہ مفاہمت کا دعوی کیا تھا۔ عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے یاتین اوزا 2002سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے 2مرتبہ رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ حلقہ اسمبلی سابرمتی سے رکن اسمبلی رہنے والے یاتین اوزا نے بی جے پی سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ بی جے پی صرف ہندوتوا کا نعرہ لگاتی ہے لیکن ہندوتوا پر عمل کے معاملہ میں بی جے پی ناکام ہے۔ انہوں نے یہ الزامات عائد کرتے ہوئے بی جے پی سے قطع تعلق کرلیا تھا اور کانگریس میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نریندر مودی کے خلاف مقابلہ کیا تھا۔ بعد ازاں نریندر مودی کی ترغیب پر دوبارہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے تھے اور اب تک بی جے پی میں شامل رہے۔ گجرات میں نریندر مودی کے دور وزارت اعلی کے دوران یاتین اوزا کے ان سے قریبی روابط رہے اور یاتین اوزا سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر معاملہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی صدر امیت شاہ کے وکیل دفاع بھی رہ چکے ہیں۔ سی بی آئی نے جس وقت امیت شاہ کو سہراب الدین معاملہ میں تفتیش کیلئے طلب کیا تھا اس وقت مسٹر اوزا بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ یاتین اوزا کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے صف اول کے قائدین سے قرابت داریاں کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یاتین اوزا کے دعوؤں پر بوکھلاہٹ اور فوری ردعمل سے شبہات کو تقویت ملنا فطری ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اور مجلس کی جانب سے اختیار کردہ موقف سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یاتین اوزا کے دعوؤں کی تردید ان کیلئے ضروری تھی لیکن اوزا اپنے دعوے پر برقرار ہیں۔ بی جے پی اپنے قدیم رفیق اور دو وقت کے رکن اسمبلی کو نا قابل اعتبار قرار  دینے میں مصروف ہے جبکہ مجلس اوزا کے کردار کو نظر میں رکھتے ہوئے کانگریس ‘ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے دامن کو پاک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔