پلواماں میں پیش اے جیش محمد کے دہشت گرد حملے میں سی آر پی ایف کے چالیس جوانوں کی شہادت سے ہندوستان او رپاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے گاؤ ں موہار جام شیر جو پنچاب کے فاظیلکا میں ہندوستان پاکستان کی سرحد پر واقعہ ہے ‘ ہائی الرٹ پر ہے۔
پنجاب۔پلواماں میں14فبروری کو پیش ائے دہشت گرد حملے کے بعد سے ماکھن سنگھ پوری ایک رات نہیں سوسکے۔ شب روز سرحد پر لگی ان کی آنکھیں اورکان نے انہیں کمزور نہیں کیاہے۔وہ تنہا نہیں ہیں۔
پلواماں میں پیش اے جیش محمد کے دہشت گرد حملے میں سی آر پی ایف کے چالیس جوانوں کی شہادت سے ہندوستان او رپاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے گاؤ ں موہار جام شیر جو پنچاب کے فاظیلکا میں ہندوستان پاکستان کی سرحد پر واقعہ ہے ‘ ہائی الرٹ پر ہے۔اچھے اور بری دونوں اوقات میں۔
ہر وقت سرحد پر انہیں قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایساپچھلی مرتبہ 2016اکٹوبر میں ان کے ساتھ تب ہوا سرجیکل اسٹرائیک ک بعد ان سے اپنے مکانات خالی کرکے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے لئے کہاگیا۔
تین طرف سے پاکستان سے گھیرا ہوا اور چوتھی جانب ستلج ندی کے ماہر جامشیر کے 1500لوگوں کے لئے پنجاب میں داخل ہونے کی دو ہی انتخاب ہیں۔
یاتو وہ ندی کے ذریعہ جائیں یا پھر ہائی سکیورٹی پل کااستعمال کریں۔ وہاں گاؤں کے با ب الدخلہ پر بی ایس ایف کی پوسٹ ہے ‘ جہاں پر گاؤں میں داخل ہونے سے قبل لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جاتی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کیونکہ ہماری کشیدگی رہتی ہے کہ ‘ مذکورہ جنگیں1965اور 1971کی جنگوں سے پیدا ہوئی صورتحال یہاں کے لوگوں کے ذہنوں پچھلے کچھ دنوں میں پیش ائے واقعات کے بعد دوبارہ تازہ ہوگئی ہے‘ سرحد پر ہونی والی حرکتوں کا آثر موہار جامشیر پر پڑپھرہا ہے۔
ہفتہ کے روز گاؤں کی عورتیں کھانے پینے کے سوکھے سامان اکٹھا کرنے میں لگے رہے جبکہ گاؤں کے مردوں کی زبانوں پر پاکستان کا تذکرہ تھا۔قادردھار تاروں سے لگے سرحد کے قریب میں واقع گھر میں بیٹھے ماکھن سنگھ ہمیشہ دوسری جانب سے لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں سنتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ’’ ہمارے کھیتوں سے صاف طور پر نظر آنے والی پیلی عمارت مسجد ہے اور ہری بلڈنگ پاکستان کا ایک چیک پوسٹ ہے ۔
ان دنوں ہم زیادہ چوکنا ہیں۔ ہم لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو غور سے سنتے ہیں کہ آیاوہ اذان ہے یا پھر پاکستان کے وزیراعظم کا دھمکی بھرا پیغام ہے‘‘۔
ان کے بڑے بھائی جگا سنگھ نے1965اور1971کی جنگوں کو یاد کیا۔انہو ں نے کہاکہ ’’ جب ان لوگوں نے شل برسانے شروع کئے۔ ہم سے کئی لوگوں کو فوج نے ریلیف کیمپ میں منتقل کیا۔ یہاں تک کہ1999کی کارگل جنگ میں بھی ہم نے گھر خالی کئے ہیں‘‘۔
مذکورہ بھائیوں نے بتایاکہ یہاں تک گاؤں میں دوشادیاں 20فبروری اور 21فبروری کو ‘ لوگ جنگ کے امکانات پر تبصرے کرنے میں مصروف ہیں۔ اور یہا ں پرکچھ گھر ہی پکے ہی ماباقی تمام عارضی ہیں۔ ہنسا سنگھ نے کہاکہ’’ ہم سرحد کے پاس رہتے ہیں اور ماضی میں چار مرتبہ ہم نے اپناگھر چھوڑا ہے۔
آپ کو نہیں پتہ پھر دوبارہ ہمیں ایسا کرنے کے لئے کب کہاجائے گا‘ لہذا کوئی بھی گھر بنانے پر زیادہ پیسہ خرچ نہیں کرتا‘‘۔ہنسا اس وقت کافی چھوٹا تھا جب 1971کی جنگ رونما ہوئے تھے۔
انہوں نے کہاکہ’’ ہماری پوری فیملی ریلیف کیمپ منتقل ہوگئی تھی ‘ سوائے میں اور میرے والدکے کیونکہ ہم لوگ میویشیوں کی دیکھ بھال کیلئے رک گئے تھے۔ مجھے یاد ہے میں نے ایک اونچی آواز سنی تھی۔
میں سمجھا کے پٹاخہ ہوگا مگر کچھ ہی دیر میں فوج ائی اور ہم سے کہنے لگی’ جنگ شروع ہوگئی ہے‘‘۔
موہاجاشمیر کے بعد موہار کھیما ہے ‘ جہاں سے پاکستان چیک پوسٹ اور واضح نظر آتا ہے‘ وہاں پر موجود76سالہ کوشال سنگھ نے کہاکہ ’’ حالانکہ ٹی وی بحث اور سوشیل میڈیاپر یہ سب بہت اچھا لگتا ہے‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارا ملک جنگ کے لئے تیار ہے۔
مذکورہ پلواماں حملہ ناقابل فراموش ہے مگر 1965‘1971اورکارگل جنگ کے نقوش اب بھی تازہ ہیں‘‘۔