اس ملک میں ہندوراشٹرا کا منصوبہ زمینی حقیقت بنتا جارہا ہے جس کے متعلق میں کہوں گا اب یہ ہندو راشٹرا گاؤں در گاؤں پھیلتا جارہا ہے۔یہ منصوبہ کسی دستور سے متاثر ہوکر نہیں بنائی گئی ہے بلکہ اس منصوبے کے تحت مظفر نگر میں گاؤں کے گاؤں مسلمانوں سے خالی کردئے گئے۔مظفر پور میں غیر سرکاری طور پر ہندو راشٹرا کا قیام عمل میں آچکا ہے۔
اسی طرح گجرات انڈین ایکسپریس میں شائع خبر سے کل دنیا کو پتہ چلا ہوگا کہ ڈونڈ ڈسٹرنڈ ایب لگا کر بڑودھ اور دوسرے مقامات پر مسلمانوں کو مکان لینے سے منع کیاگیا ہے تو یہ ان کے لئے ایک خبر ہی ہوگی مگرگجرات کے لئے یہ پرانی بات ہے۔کیونکہ گجرات کے محلوں میں ہندو راشٹرقائم ہوچکے ہیں۔
او ریہ صرف گجرات میں نہیں بلکہ دہلی اور دوسرے تمام مقاما ت پر ہے۔ اب یہ دوسرے طریقے سے ہورہی ہے ۔
جس کا نمونے ہم نے کاس گنج میں دیکھا۔ اس سے قبل ہم نے دیکھا تھا کہ مرلی منوہر جوشی اور اومابھارتی نے ترنگا یاترائیں کی تھیں جو بڑی ترنگا یاترائیں تھیں جس کا ارادہ ملک کو حاصل کرنے کا تھاجس کے ذریعہ سری نگر ‘لال چوک میں جاکر ترنگا لہرانا اور راشٹر کو حاصل کرنا مقصد تھا۔
مگر آرایس ایس نے اب اس کا پھیلاؤ کردیا ہے اور اس نے ہر جگہ لوگوں کو راشٹر قائم کرنے کی ذمہ داری دیدی۔ اور یہ راشٹرا اس طرح قائم کیاجاتا ہے کہ آپ مسلم محلوں سے گذرتے ہیں‘ آپ کے ہاتھوں میں ترنگا لہراتا ہے ‘ آپ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس طرح آپ مسلمانوں پر فتح حاصل کرتے ہیں۔
اسی طرح علاقائی سطح پر ملک کو غنڈوں کے حوالے کرنے کاکام کیاجارہا ہے۔ اب شہر شہر گاؤں گاؤں اس کے ذریعہ ہند وراشٹروادی کو پھیلایاجارہا ہے اور چودہ تا پچیس سال کی عمر کے نوجوانوں کو کہا جارہا ہے کہ وہ ہندو رشٹراواد کا علمبردار ہیں اور ان پر ہندو رشٹرواد قائم کرنے کی ذمہ دار ہے۔
انہیں بھی یہ احساس ہورہا ہے کہ ہاتھوں ترنگا تھامے مسلمانوں کے محلوں سے گذرتے ہوئے ان کے خلاف نعرے بازی کرنا اور مساجد کے سامنے کھڑے ہوئے نعرے لگانا سے ہندو راشٹر واد قائم ہوگیاہے۔ اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ راشٹر واد کو ہندو مذہب کے ساتھ جوڑ دیاگیا ہے ۔
پچھلے چارسالوں میں ہم نے دیکھا کہ کسی بھی تہوار کے موقع پر ترنگا ضرور لہرایا جارہا ہے۔
میں نے سنا ہے کہ تاملناڈو کی منادر میںآہستہ آہستہ آر ایس ایس کا قبضہ ہورہا ہے اسی وجہہ سے وہاں کی منادر اور دیگر مقامات کے منادر میں بھی قومی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔
رام نومی ک تہوار ہو یاپھر کانوریوں کا تہوار ہو ہاتھوں میں جل( پانی ) کے ساتھ ترنگا ضرو ردیکھائی دے رہا ہے اور مخالف پاکستان اور مخالف مسلمان نعرے بھی لگائے جارہے ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں لگائے جاتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندو دھرم کے لوگ اپنے آپ کو اس ملک کا علمبردار سمجھنے لگے ہیں۔
اس کے لئے ہتھیاروں کا بھی تہواروں کے موقع پر کھلے عام مظاہرہ بھی کیاجارہا ہے ۔
اس مرتبہ بہار‘ مغربی بنگال اور اترپردیش میں ہمیں اس قسم کے مظاہرے دیکھنے کو ملے ۔اس مرتبہ تلواروں کی ریکارڈ توڑ فروخت ہوئی ہے ۔
اس مرتبہ ہمارے پولیس دوست او ردوسر ے لوگوں نے بھی انکشاف کیاہے کہ تلواروں کی ان لائن فروخت ہوئی ہے‘ اس کے علاوہ ٹرک بھر بھر کے تلواریں پہنچیں ہیں۔
کیرالا جیسی ریاست میں رام نومی کے دوماہ بعد رام نومی منائی جاتی ہے۔ مغربی بنگال میں نہ درگا نہ کالی ‘ صرف سری رام او رہنومان کے نعرے دوسال قبل لگے اور اس بار سینکڑوں کی تعداد میں مغربی بنگال او ربہار میں را م نومی کے موقع پر ریالیاں نکالی گئی اور مخالف مسلم فسادات بھی بڑے پیمانے پر رونما ہوئے ۔
دہلی یونیورسٹی کے محکمہ ہندی کے پروفیسر اپوراؤ آنند کا سٹیزین کانکلیو 2018سے خطاب کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا‘ مکمل ویڈیو کو ضرورمشاہدہ کریں