ہندوستان میں نو زائیدہ لڑکو ں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی شرحِ اموات زیادہ ہے: یو نیسیف

ہندوستان میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ بہت پرانا ہے۔صرف دفتروں اور کارخا نو ں میں ہی نہیں بلکہ ان کے گھر میں بھی ہوتاہے۔یہاں تک کہ پرورش کے دوران ماں باپ خود اس سلوک کو روا رکھتے ہیں ۔

 

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات کا انکشاف ہو ا کہ ہندوستان میں والدین نوزائیدہ بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیوں کا علاج کر نے سے گریز کر تے ہیں ۔بچوں کے تعلق سے کام کر نے والے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسیف کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ نوزائیدہ لڑکیوں کی اموات ہندوستان میں زیادہ ہو تی ہے۔یونیسیف نے حکومت ہند کے اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہندو ستان میں ہر سال چھ لاکھ بچیوں کی موت ہوتی ہے۔

 

یونیسیف میں ہندوستان کی نمائندہ یاسمین علی حق نے کہا کہ لڑکی ہونے کا فائدیہ ہے کہ وہ جسمانی طو پر مضبوط ہوتی ہے۔اس کے اندر بیماریوں سے مقابلے کر نے کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ سماجی طور پر انتہائی کمزور ہے۔وہ مزید کہتی ہے کہ ’’ صنف نازک کیساتھ امتیازی سلوک پرانے زمانے سے کیا جارہا ہے۔یونیسیف کے ذریعہ حاصل کی گئی 2017کے مطابق نو زائیدہ بچوں کی دیکھ بھا ل کے لئے ملک میں 700دواخانوں میں مفت علاج کیا جاتا ہے۔لیکن ان تمام دواخانوں میں صرف بچے ہی اس سہو لت کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

 

یونیسیف کے ساتھ کام کر نے والی ایک ما ہر صحت گگن گپتا نے کہا کہ ہمارے اس سماج کی صورت حال سے سبھی واقف ہے۔ہمارے ملک میں لڑکیوں کو کتنی مصیبتیں اٹھا نی پڑتی ہیں ۔ انہیں علاج میں تک امتیازی سلوک کیا جا تا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ والدین اپنی بیٹیوں کا علاج نہیں کر واتے ۔کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ وہ کام سے چھٹی لیں اور انکی تنخواہ کٹے۔شائد ان کی نظروں میں بیٹیوں کا علاج کر وانا فائدہ مند نہیں ہے ۔جبکہ بیٹوں کے علاج میں دوڑ دھوپ کیجاتی ہے۔ہندوستان میں والدین بیٹوں کو تر جیح دیتے ہیں ۔کیوں کہ سماج کے بنائے قانون کے مطابق بعض مذہبی روایت کو انجام دینے اور ملکیت تقسیم کے لئے لڑکوں کی ضرورت ہو تی ہے اور اگر کوئی خاتون ایسا کرتی ہیں تو اسے غیر قانو نی مانا جاتا ہے۔

 

بیٹیوں کو اکثر ہمارے سماج میں بوجھ مانا جا تا ہے کیوں کہ شادی کے وقت جہیز دینا پڑتا ہے۔انھوں نے کہا کہ بیٹوں کی لالچ میں اسقاط حمل میں اضافہ ہوا ہے۔جس کے سبب مرد و زن کی شرح میں کافی فرق پڑا ہے۔ ہمارے ملک میں63ملین خواتین لا پتہ ہے۔ہندوستان کی حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کے تحفظ اور تعلیم کے لئے منظم کوشش کی ہے اور لڑکیوں کے والدین کے لئے فلاح و بہبود کے فنڈز میں اضافہ کیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ۔راجستھان کے صحت عامہ کے ماہر نریند ر گپتا کاکہنا ہے کہ ’’ ہم لوگوں نے دیکھا ہے کہ ناقص غذا بچیوں کی اموات کی اہم وجہ ہے ۔آج بھی ہمارے سماج میں لوگ لڑکی سے زیادہ لڑکے کو ترجیح دیتے ہیں۔