ہندوستان میں مذہبی آزادی منفی ڈگر پر ۔ فرقہ وارانہ واقعات میں اضافہ

واشنگٹن 2 مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں 2015 میں مذہبی آزادی منفی ڈگر پر رہی ہے کیونکہ یہاں مذہبی رواداری کی صورتحال ابتر ہوگئی تھی ۔ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ امریکی کانگریس کے با اختیار امریی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ( USCIRF ) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں حکومت ہند سے کہا کہ وہ سر عام ان عہدیداروں اور مذہبی قائدین کی سرزنش کریں جو مذہبی برادریوں کے خلاف ہتک آمیز بیانات جاری کرتے ہیں۔ رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ 2015 میں مذہبی رواداری متاثر ہوئی ہے اور مذہبی آمادی کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کمیشن کے ارکان کو جاریہ سال کے اوائل میں حکومت ہند نے ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس کا استدلال تھا کہ مذہبی آزادی کی دستور میں گنجائش فراہم کی گئی ہے اور کسی بیرونی تیسرے فریق کو اس پر تبصرہ کرنے یا اس کی تحقیق کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا یہ کہ اقلیتی برادریاں خاص طور پر عیسائیوں ‘ مسلمانوں اور سکھوں کو دھمکانے ‘ ہراسانی اور تشدد کے واقعات کا شکار ہونا پڑا ہے اور بحیثیت مجموعی ہندو گروپس کے ہاتھوں یہ سب کچھ ہوا ہے ۔ کمیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ برسر اقتدار بی جے پی کے ارکان خاموشی کے ساتھ ان گروپس کی تائید کرتے ہیں اور مذہبی طور پر تقسیم پسندانہ زبان استعمال کرتے ہیں تاکہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوسکے ۔ رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ یہ مسائل پولیس کی جانبداری ‘ عدلیہ کے نامساعد حالات کی وجہ سے ایسے گروپس میں سزا سے مستثنی ہونے کا ماحول پیدا ہوگیا ہے اور یہاں اقلیتی برداریوں زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں۔ رپورٹ کے بموجب ایسے حالات میں اقلیتی برداریوں کا کوئی سہارا نہیں ہیں۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کو مذہبی آزادی کے مسئلہ پر دوسرے درجہ کے ممالک میں شامل رکھا ہے ۔ 2009 سے ہی ہندوستان کو اس زمرہ میں رکھا گیا ہے ۔ اس گروپ میں انڈونیشیا ‘ افغانستان ‘ آذر بائیجان ‘ کیوبا ‘ قزاقستان ‘ لاؤس ‘ ملیشیا ‘ روس اور ترکی بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے سفارش کی گئی ہے کہ خاص طور پر آٹھ ممالک وسطی افریقی جمہوریہ ‘ مصر ‘ عراق ‘ نائیجریا ‘ پاکستان ‘ شام ‘ تاجکستان اور ویتنام کو تشویش کے گروپ میں شامل کریں۔ یہ سفارشات تاہم اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کیلئے لازما قابل عمل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ کمیشن نے ہندوستان کو دوسرے درجہ کے گروپ میں رکھا ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مذہبی آزادی کے معاملہ میں منفی ڈگر پر رہی ہے ۔ یہ واضح کرتے ہوئے کہ جاریہ سال بھی ہندوستان میں صورتحال پر قریبی نظر رکھی جائیگی تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ آیا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے  یہ سفارش کرنا تو ضروری نہیں کہ ہندوستان کو بھی انتہائی تشویش کے ملک کے زمرہ میں رکھا جانا چاہئے یا نہیں ۔ رپورٹ میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ ہندوستان سے باہمی رابطوں میں مذہبی آزادی کے امور پر تشویش ظاہر کرے ۔ کمیشن نے صدر بارک اوباما کی ستائش کی کہ انہوں نے 2015 میں دورہ ہند کے موقع پر یہ مسئلہ اٹھایا تھا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس پر وزیر اعظم ہند نے بھی جواب دیا تھا ۔ رپورٹ میں اتر پردیش ‘ آندھرا پردیش ‘ بہار ‘ چھتیس گڑھ ‘ گجرات ‘ اوڈیشہ ‘ کرناٹک ‘ مدھیہ پردیش ‘ مہاراشٹرا اور راجستھان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان ریاستوں میں سب سے زیادہ واقعات مذہبی مفاد پرستی کے تحت پیش آئے ہیں۔ وزارت داخَہ کی حالیہ رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ 2015 میں فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ 2015 میں ایسے واقعات میں 97 افراد ہلاک اور 2,246 زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی عدالتوں میں ابھی تک 2013 کے یو پی کے فسادات ‘ 2002 کے گجرات فسادات ‘ 2007 کے اوڈیشہ میں ہندو ۔ عیسائی فسادات اور دہلی کے 1984 کے ہند ۔ سکھ فسادات کے مقدمات کی سماعت چل رہی ہے ۔ رپورٹ کے بموجب مذہبی اقلیتی یہ دعوے بھی کرتی ہیں کہ عینی شاہدین کو گواہی نہ دینے کیلئے دھمکایا جاتا ہے ۔ فبروری 2016 میں مظفر نگر فسادات کے ایک مقدمہ میں 10 افراد کو ثبوت کے فقدان پر بری کردیا گیا ۔ کہا گیا ہے کہ گجرات فسادات سے متعلق عدالتی مقدمات ہنوز جاری ہیں۔ ایسی قابل بھروسہ رپورٹس بھی ہیں کہ حکومت ان وکلا اور کارکنوں کو نشانہ بناتی ہے جو انصاف رسانی کیلئے کام کرتے ہیں۔ 1984 کے مخالف سکھ فسادات کے مقدمات کی جانچ کیلئے تازہ ایس آئی ٹی بنائی گئی ہے ۔ اس کمیٹی نے نہ اب تک کوئی رپورٹ پیش کی ہے اور نہ کوئی چارچ شیٹ عدالتوں میں پیش کی گئی ہے ۔