ہندوستان بدترین سیاسی، اقتصادی، سماجی بحران سے دوچار

فرقہ پرست طاقتوں سے ملک کے دستور کو بچانے کی اپیل،مائناریٹی کنونشن سے غلام نبی آزاد، سی ایم ابراہیم، رحمن خان اور کنہیا کمار کا خطاب
حیدرآباد۔4؍ڈسمبر۔( راست ) ۔ہندوستانی جمہویت غریب، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں سے چلتی ہے کیونکہ یہ لوگ پولنگ کے روز ایک فسٹول کی طرح ووٹ ڈالتے ہیں۔ بڑے بزرگ اور برقعہ پوش خواتین قطاروں میں ٹھہرکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں جبکہ صاحب ثروت اور بڑے بڑے تاجر پیشہ افراد بہت ہی کم اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیںان خیالات کا اظہار جناب غلام نبی آزاد قائد اپوزیشن راجیہ سبھا و سینئر کانگریسی قائد و سابقہ مرکزی وزیر نے ہوٹل پارک میں یونائٹیڈ مائناریٹی فورم کے زیر اہتمام منعقدہ آٹھویں سالانہ ریاستی کنونشن کے موقع پرکیا۔ جس میں تلنگانہ اور کرناٹک کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی جن میں مسرس رحمن خان ، سی ایم ابراہیم، ناصر حسین ایم پی، کنہیا کمار، احمد شریف، زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست ، ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی ،ضمیر الدین، آرسی کنٹیا،مسٹر مدھو گوڑ یاشکی،احمد سعید قابل ذکر ہیں۔ جناب ظفر جاوید کنوینر مائناریٹی فورم اس کنونشن کے روح رواں تھے۔ شہ نشین پر عامر جاوید، مسٹر بوس تھے۔ جناب غلام نبی آزادنے کہاکہ وہ چار وزرائے اعظم کے دور حکومت میں مختلف وزارتوں پر فائز رہ کر خدمات انجام دے چکے ہیں اس دوران انہوں نے ایسا سیاسی بحران نہیں دیکھا جو آج نریندر مودی حکومت میں دیکھنے کو مل رہاہے انہوں نے کہا کہ آج ملک سیاسی، اقتصادی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ مودی حکومت نے مذہب کے نام پر قوم کو تقسیم کردیا ہے جبکہ ہم انسان تو باقی ہیں لیکن انسانی اخلاق وکردار کھودیئے ہیں۔ غلام نبی آزاد نے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جن لوگوں پر عوام کو جوڑنے کی ذمہ داری تھی انہوں نے ہی عوام کو توڑنے کا کام کیا ہے۔ آج ملک میں اتحاد اور سالمیت خطرہ میں ہے ، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اکثریت ، اقلیت اور تمام پسماندہ طبقات کو چاہیے کہ سب ہی مل کر اس ملک کے اتحاد اور سالمیت کے تحفظ کیلئے آگے آئیں اورملک کو اس خطرہ سے بچانے کی کوشش کریں۔ 1947ء میں جو غلطی ہم نے کی تھی وہ اقلیت کیلئے سب سے بڑا دھکا تھا چاہے اقلیت یہاں کی ہو یا وہاں کی۔اب دوبارہ علحدگی کو دعوت دینا مرض کینسر کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔آزاد کا کہنا تھا کہ ملک میں ابھی سیکولرازم مرا نہیں بلکہ مسلم سیکولرازم کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہندو سیکولرازم بھی کھڑا ہے اور سب مل کر ہی ملک کو بچا سکتے ہیں۔ آخرمیں تمام سیکولر عوام خصوصاً اقلیتوں سے خواہش کی کہ وہ پولنگ کے دن حق رائے دہی کیلئے عوام میں بھی شعور بیدار کریں اوراپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے سیاسی شعور اوردانشمندی کا ثبوت دیں ۔اپنا ووٹ ایسی جماعت کے حق میں استعمال کریں جو اس ملک کے سیکولر عوام اور جمہوریت کا تحفظ کرسکے۔ جناب سی ایم ابراہیم سینئر کانگریسی قائد و ایم ایل سی اور سابقہ وزیر نے کہاکہ موجودہ حالات کیلئے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ انہوںنے قیامت کے آثار بتاتے ہوئے کہا کہ آج اچھے اور دیانت دار لوگ سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں اور کم ظرف لوگ سیاست میں آچکے ہیں۔ مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کریں ۔ دلوں میں خوف خدا اور پیارے نبی کریم ﷺ کی محبت ہونا واجب ہے، کوئی بھی مسلم سیاست داں کسی کے مذہب کے خلاف نہ کہیں۔ مسلمان اپنے ادب و اخلاق اور کردار کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق وکردار کو دیکھ کر 90لاکھ لوگ اس ملک میں مسلمان ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ مسلمانوں کو اپنے پیدا ہونے کے مقصد کوسمجھنا چاہیے، دنیا ہماری امتحان گاہ ہے اور آخر ت کی فکر کریں۔ آج ہم مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں ، مسلک پر ایک نہیں ہوسکتے تو کم از کم مسائل میں ایک ہوجائیں ۔تعلیم سے متعلق کہا کہ مسلمان مطالعہ کی عادت ڈالیں، ہم مطالعہ کرنا چھوڑدیئے ہیں ۔ ،گلبرگہ کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ آج گلبرگہ کے ہر گھر میں گریجویٹ لڑکیاں ہیں ، تعلیم کے ساتھ تربیت کی ضرورت ہے ایک اچھی تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے اولاد کی صحیح پرورش کرسکتی ہے ۔ انہو ںنے کہاکہ ہم مسلمان اس ملک کے حقدار ہیں کوئی بھی حکومت ہمیں خیرات نہیں دے رہی ہے ۔گذشتہ 70سالوں میں علیگڑھ یونیورسٹی، شاہ بانو کیس اور بابری مسجد میں مسلمانوں کو الجھاکر رکھدیا گیا ہے جبکہ مسلمانوں کی معیشت پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ ہم اپنے وقار اور طاقت کو سمجھے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی سعی کریں، مسلمان کے دل میں خوف خدا اور آخرت میں جواب دینے کا یقین ہوتو وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ جناب مشتاق ملک صدر تحریک مسلم شبان نے کہا کہ آج کا یہ اجلاس انتخابی ماحول میں یونائیٹیڈ مائناریٹی فورم کی جانب سے منعقد کیا گیا جو اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے کانگریس کی حمایت کوئی جذباتی نہیں ہے، بلکہ یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمان بہت بُری طرح منتشر ہوچکے ہیں ، 1994ء کے بعد پہلا انتخاب ہے کہ مسلمان متحدہ نہیں ہیں۔ اس سے قبل کم از کم 80مسلمان متحدہ رہ کر ووٹ کا استعمال کرتے تھے ۔ ٹی آر ایس کی مخالفت کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو جو طاقتیں یا جماعتیں ذلیل کرنے، جھکان کی کوشش کررہی ہیں انکے ساتھ ہمارے چیف منسٹر نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر حسین رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ 2019کے انتخابات کے لئے ریاست تلنگانہ کا الیکشن اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے کانگریس اور مہا کوٹمی کے امیدواروں کو کامیاب بنانے پر زور دیا ۔ جناب ناصر حسین نے کہاکہ مسلمان اپنے مسائل اور دکھ درد کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مسائل اور انکے دکھ درد کو سمجھیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2002ء میں گجرات فسادات کے بعد اکثریتی طبقہ اور دیگر پسماندہ طبقات نے جس طرح مسلمانوں کے ساتھ اظہار یگانگت کیا تھا اور مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تھی آج یہ ماحول ختم ہوگیا ہے کہ آج ملک کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کوگائوکشی کے نام پر ہلاک کیا جارہا ہے ۔ مسٹر آر سی کنتیا جنرل سکریٹری اے آئی سی سی نے کہا کہ ریاست تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت نے اسمبلی انتخابات سیکولرازم کے نام پر اور پارلیمانی انتخابات بی جے پی کے ساتھ ملکر لڑنے کیلئے اپنی حکومت کو تحلیل کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آڑ ایس حکومت نے مرکزی مودی حکومت کا ہر محاذ میں ساتھ دیا ہے ۔ انہوں نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو کانگریس اور متحدہ جماعتوں کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ جناب کے رحمن خان سابقہ مرکزی وزیر نے کہاکہ آزادی سے ہی ہندوستانی مسلمانوں کا کانگریس سے رشتہ رہا ہے انہوں نے کہا کہ کانگریس نے اس ملک کو آئین دیا ہے ، اس کا تحفظ صرف کانگریس ہی کرسکتی ہے اور دستور کے تحفظ کے لئے انہوں نے کانگریس کے حق میں حق رائے دہی کے استعمال پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کو بچانے کیلئے کانگریس کو بچانا ہوگا ، ملک کی سالمیت اور جمہوریت کو بچانے کیلئے کانگریس کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ رحمان خان نے کہا کہ جمہوریت میںجب ظالم حکمراں ہوجاتا ہے تو اسکو ووٹ کے ذریعہ نکال باہر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی سجادہ نشین و چانسلر گلبرگہ یونیورسٹی کو تہنیت پیش کی گئی اس موقع پر انہوں نے کہا کہ گلبرگہ یونیورسٹی اقلیتی یونیورسٹی ہے یہ خدمت خلق کے جذبہ کے تحت قائم کی گئی ہے ۔ اور اس میں تمام اقلیتوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم ہونگے۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں صوفی پن کی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے ۔ سجادہ صاحب نے کہا کہ اولیاء اللہ ایسی جامع شخصیات تھیں جن میں تمام علوم موجزن تھے۔ ڈاکٹرکنہا کمار نے تلنگانہ اسمبلی انتخابات سیمی فائنل کی حیثیت رکھتے ہیں اور مہاکوٹمی کی کامیابی ہونی چاہئیے تاکہ تمام جماعتوں کو اس کا اچھا پیغام پہنچے۔ انہو ںنے کہا کہ ایک سال میں 12ہزار کسانوں نے خودکشی کی ہے ، ملک میں تانا شاہی ہوتو پھر ملک کس طرح ترقی کرسکتا ہے ۔ کنہا کمار نے کہا کہ تمام سیکولر جماعتوں کا اتحاد کس کو کتنی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی یہ دیکھنا نہیں ہے کہ بلکہ ملک کو بچانے کیلئے یہ اتحاد کیا گیا۔ انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ دستور کو بچانے کی کوشش کریں اور دستوری حق کو حاصل کرنے کیلئے تمام کو ایک ہونا ہوگا۔ جناب ظفر جاوید نائب صدر تلنگانہ پردیس کانگریس کمیٹی وکنوینر کنونشن نے مہمانوں کا استقبال کیا اور مختصراً مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ جبکہ جناب عامر جاوید نے تمام شرکاء کنونشن کا شکریہ ادا کیا۔