ہندوستانی سیاست اخلاقی گروٹ کے نازک پائیدان پر ۔تبسم فاطمہ

فرقہ واریت کی آندھی تھم بھی گئی تو ہندوستانی عوام کے اخلا قی معیار کو بحال ہونے میں نصف صدی گزر جائے گی۔
ہندوستانی سیاست اگر بیمار ہے تو اس سے کہیں زیادہ بیمار ہندوستانی میڈیا ہے۔ موجودہ صورت میںیہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں میں زیادہ بیمار کون ہے؟ سیاست نفرت کا ایک مہرہ چلتی ہے تو میڈیا دوقدم آگے بڑھ کر نفرت اور اشتعال انگیز بیانات کی تمام حدودسے آگے بڑھ جاتا ہے۔ ٹی وی نیوزچینل ہندومسلم تنازعات کو نہ صرف ہوا دے رہے ہیں بلکہ آر ایس ایس کے زیر سایہ ان کی جرات اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مسلمان پر حملے کے بعد اب وہ مذہب اسلام کو اپنا ہدف بنارہے ہیں۔

یہ کھیل ستر برسوں کی ہندوستانی سیاست میں کبھی نہیں ہوا۔کانگریس کی حکومت میں فرقہ وارانہ فسادات تو کافی ہوئے لیکن ہندوستان کی سیاست آج کی طرح اخلاقی گرواٹ کے نازک ترین پائیدان پر کبھی نہیں ائی تھی۔بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے اگر 2019میں بھاجپا کی حکومت چلی گئی اور کوئی دوسری حکومت آبھی گئی تو عوام کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ فرقہ واریت کی آندھی تھم بھی گئی تو ہندوستانی عوام کے اخلاقی معیار کو بحال ہونے میں نصف صدی گزر جائے گی۔اصول قاعدے ‘ قانون اور انسانی اخلاقیات کی دھجیاں جس بے رحمی سے ان چار برسوں میںآری ہیں‘ اس سے پہلے کبھی ایسے مناظر نہیں دیکھے گئے۔

عدالتیں خوفزدہ ہیں۔ زیادہ تر میڈیاتو بک چکا ہے یا مجبور ہے۔ اقتدار کے تحفظ کی خاطر ‘ ہر حد سح گزر جانے کے فیصلے سے صرف سیاسی نظام متاثر نہیں ہوگا‘ بلکہ اس کے خوفناک اثرات انسانی اخلاقیات ‘نفسیات‘ ثقافت ‘ معاشرہ‘ سکیولرزم‘ او رجمہوریت کو بھی ریزہ ریزہ کردیں گے۔ڈیجیٹل انڈیا ‘ نیو انڈیا کے بعد پوزیٹیو انڈیا کا نعرہ دینے والے وزیراعظم کو سوچنا ضرور چاہئے کہ ان کے خوابوں کا ہندوستان کیا ہند ومسلم اتحاد‘ صدیوں کی ملت‘ اعلی اقدار اور جمہوریت کی لاشوں پر تعمیر ہوگا؟کیا شرپسندی‘ اشتعال انگیزی ‘ فسطائیت کی آندھیوں کے درمیان پوزیٹیو کا ادنیٰ تصور بھی محفوط رہ سکتا ہے؟۔ ثقافت‘ جمہوری قدروں کی پامالی او رملک کے بکھرے شیرازے کو دیکھنے کے باوجود اگر پورا ہندوستان چپ ہے تو یہ آرام سے کہاجاستکا ہے کہ دراصل یہ خاموشی خوف سے برآمد ہوئی ہے۔ چار برس میں ہندوستان کا چہرہ بدل دیاگیا ہے۔

انتخابات سر پر ہوتے ہیں تو برسراقتدار حکومت کے لئے مسلمانوں سب سے بڑا ہتھیار بن جاتے ہیں۔ اکثریتی طبقے سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو نشانہ در نشانہ اور میڈیا کے سہارے ملک دشمن او ردہشت گردثابت کرنے کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کے ذریعہ راحت پہچانے والے کام بھی حکومت کو منظور نہیں۔اس کی مثجل تو اسی وقت مل گئی جب لکھنو میں ڈاکٹر کفیل نے بیمار بچوں کو موت سے بچانے کی کوشش کی تو وزیر اعلی یوگی کو یہ برداشت نہ ہوسکا او ران پر الزامات کی بارش کرتے ہوئے انہیں جیل میں ڈال دیاگیا۔لیکن ابھی بھی ملک میں انصاف زندہ ہے او رڈاکٹر کفیل پر لگنے والے الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔ تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات پر بھی میڈیا کا تبصرہ گمراہ کن تھا۔ خاطی افراد کو قانون کے تحت سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن ہندوستانی میڈیا سے ایسے معاملے کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیتی ہے۔

نفسیاتی ردم عمل کا یہی ہے کہ روہنگیائی مسلمانو ں پر مرکز کی حمایت کا معاملہ ہو‘ آسام میں شہریت کا معاملہ ہو یاکشمیر کا ہندوستان کی بڑی اکثریتی طبقے کے سامنے مسلمانوں کی غلط تصویر کو پیش کیاجائے اور یہ واضح کردیاجائے کہ مسلمان کے اندر حب الوطنی نام نہیں ہے او ربیشتر مسلمانوں کا جھکاؤ دہشت گردی کی طرف رہا ہے ۔ پدماوتی فلم کے تنازع میں علاؤ الدین خلجی کو مخالف ہندو ثابت کرنے او رتاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے پیچھے بڑا مقصد یہ ہے کہ نشانہ مسلمانوں ہوں۔ سنجے لیلا بھانسالی کی پچھلی فلم باجی راؤ پیشوا بھی ہندونظریہ کوفروغ دینے کے مقصد سے بنائی گئی تھی اور اس فلم کا مقصد بھی یہی ہے کہ منگولوں سے ہندوستان کی حفاظت کرنے والے علاؤ الدین خلجی کودہشت گرد کے طور پر پیش کیاجائے۔ ممبئی فلم انڈسٹری آہستہ آہستہ بھگوا رنگ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ بیشتر فلم کار ہندوو نظریات پر مبنی کہانیوں کو لے کر سامنے آرہے ہیں۔

یہ بدلتے ہوے ہندوستان کی تصوئیر ہے جہاں بار بار اپنے بیانات میںآر ایس ایس سربراہ کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دراصل ہندو ہیں اور ایک دن یہ گھر واپس آجائیں گے۔ گھر واپسی کے الزامات ‘ تنازعات‘ دباؤ‘ معاشی سطح پر کمزور کرنے کی جو مہم کام کررہی ہے ‘ کیا اس نتیجے میں ملک کی تیس کروڑ مسلم آبادی اپنا مذہب چھوڑ دے گی؟ یہ بات خواب وخیال سے زیادہ نہیں ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان دنوں ملک میںیہی کھیل کھیلاجارہا ہے۔ کیاانتخابات جیتنے کے لئے ملک میں نفرت پھیلانا اور مسلمانو ں شبیہ کو داغدار کرنا ضروری ہے؟ صورتحال اس حدتک خراب ہوچکی ہے کہ اندرا گاندھی کے شوہر راہول گاندھی کے دادا فیروز گاندھی کا تعلق پارسی قوم سے تھامگر انہیں بھی فیروز خان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔

انصاف او راپنے حق کی جنگ لڑنے والی نومسلم دوشیزہ ہادیہ ابھی بھی خوفزدہ ہے کیونکہ عدالت نے اسی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی مگر شوہر کی تحویل میدئے جانے کے فیصلے پر عدالت خاموش رہی ۔ شوہر کی تحویل میں دئے جانے کے بعد بھی ہادیہ اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ سکتی تھی۔سب سے خوفناک او ردل کو دہلادینے والے بیانات گجرات انتخابات کو لیکر سامنے آرہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی دہشت گردووں کو جنت بھیجنے اور کشمیری پتھر بازوں کو جیل میں ڈالنے کی باتیں کررہے ہیں۔ انتخابات کے موسم میں گجرات کا رول ماڈل کی جگہ اس طر ح کے بیانات واضح کرتے ہیں کہ بائیس برسوں سے چلی آرہی بی جے پی حکومت کے استحکام کے لئے سیدھا نشان مسلمانوں کو بنایاجارہا ہے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گجرات کہ ہندو انتہا پسند‘ سکیولرزم او رجمہوریت کے بہکاوے میں نہ ائیں اور مسلمانوں کو مین اسٹریم میں ابھرنے کا موقع نہ دیں۔اس موقع پر بی جے پی کی طرف سے جو ویڈیو وائیرل ہورہا ہے ‘ اس میں بھی ہندوؤں کو مسلمانوں سے منحرف کرنے او رنفرت کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

ویڈیو میں ہندو لڑکی مسجد کے قریب سے گذرتی ہے تو اذان سن کر خوفزدہ ہوجاتی ہے ۔ وہ گھر واپس آتی ہے تو اس کی ماں کہتی ہے اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ کانگریس کی حکومت نہیں ہے۔ یہ سوچنا ضروری ہوجاتی ہے کہ ہمارا ملک کس سمت جارہاہے۔ سیاست ‘ صحافت او رہمارا میڈیا اس ملک کو کہاں لے جارہا ہے۔

زبان بندی کا عالم یہ ہے کہ دی وائیر جب امیت شاہ کے بیٹے کی کمپنی کے خلاف رپورٹ شائع کرتا ہے تو دی وائیر پر عزت ہتک کا مقدمہ کردیاجاتا ہے۔ عدالت میں دوسری بار بھی جئے شاہ کی پیشی نہیں ہوتی او رملک کے اخبارات اور میڈیا اس خبر کو دبانے میں سارا زور صرف کردیتے ہیں۔سہراب الدین فرضی انکاونٹر کے معاملے کی سنوائی کرنے والے سی بی ائی جج برج گوپال لوہیا کی 2016میں موت ہوجاتی ہے جس پر کیروان میگزین ایک رپورٹ شائع کرتا ہے ۔

تمام ثبوت لوہیا کے قتل اور قتل میں شامل ایک بڑی ہستی کی طرف اشارہ کررہے ہوتے ہیں لیکن میڈیا اتنے بڑے سیاسی قتل کو بھی دفن کرنے کاکام انجام دیتا ہے۔حکمراں اتنے بڑے سیاسی قتل کو بھی دفن کرنے کاکام انجام دیتا ہے۔حکمراں پارٹی کے لوگ ائے دن مارنے پیٹنے‘ہاتھ پاؤ ں توڑنے اور قتل کردینے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

آرایس ایس سربراہ نے گاؤ رکشہ کے تحفظ کے لئے ابھی حال کے ایک بیان میں ’ محافظ دستے‘ کو ہر حد سے گزر جانے کی تلقین کی ہے ۔ ساتھ ہی لوجہاد معاملے میں اب مسلم عورتوں کو پیٹنے تک کی دھمکیا ں دی ہے۔ کیا اس صورتحال میںیہ کہنے او ربتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا پیار ا ہندوستان‘ خوابوں کا ہندوستان آج کس ماحول میں سانس لے رہا ہے؟اس ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے