اُردو سے زیادہ شیرین زبان کوئی بھی نہیں۔ بالیند ودویدی
احساس کمتری سے باہر نکلئے‘ اُردو کا مستقبل سیاہ نہیں۔ پی کے تیواری
لکھنو۔ اُردوکا ماضی شاندار رہا ہے ‘ حال بھی بہت خوب ہے اور مستقبل تابناک نہیں تو قابل تشویش بھی نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُردو داں طبقہ احساس کمتری سے باہر نکلے ‘ بیچارگی کا لبادہ اتار پھینکنے اور اس کی فلاح بہبود کے لئے زمینی سطح پر کام کرے۔
یہاں واقع پریس کلب میں ایک سمینار کے دوران مقررین نے اُردوکے مستقبل کے تئیں پر اعتماد رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے اُردو حلقہ کو تاکید کی اگر آپ صرف جلسوں‘ سمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعہ اُردو کی فلاح وبہبود کا خواب دیکھیں گے تو یہ اس کی شریں زبان کو بستر مرگ پر پہنچانے کے مترادف ہوگا۔الفاروق ایجوکیشنل اینڈ ویلفیرفاونڈیشن کے زیراہتمام منعقدہ سمینار بعنوان’اترپردیش میں اُردوکا مستقبل‘ اندیشہ اور توقعات ‘ سے خطاب کرتے ہوئے معروف شاعر اور یوپی ہندی سنستھان کے ڈائرکٹر منیش شکلا نے کہاکہ پاکستان کی مخالفت رویہ نے ہندوستان میں اُردوو کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان نے جب اس زبان کو قومی درجہ دیا تو اس کے خلاف ایک ماحول بنانا شروع کردیاگیا۔ حالانکہ اس زبان کی خوشبو اس کی شرینی اس کی افادیت ایسی ہے کہ اسے کبھی بھی ختم نہیں کیاجاسکتا اور آج اگر پوری دنیا میں اُردوکی صورتحال پر نظر ڈالیں توایک طرح سے اس میں انقلاب آگیا ہے ۔ البتہ اترپردیش میںیہ دوسری سرکاری زبان ہوتے ہوئے بھی وہ توجہ او راہمیت نہیں پاسکی جس کی یہ حقدار ہے۔ انہو ں نے کہاکہ کوئی بھی زبان صرف سرکاری بھروسے سے آگے نہیں بڑھتی ہے۔ اس زبان کو مضبوط کرنے ‘ آگے بڑھانے کاکام اس کے چاہنے والے اس سے علمت رکھنے والے ہی کرتے ہیں۔
متذکرہ مصرعہ کا خالق منیش شکلا نے کہاکہ اُردوکے فروغ کا اپنے اپنے گھرو ں سے شروع کیاجانا چاہئے ۔ اپنے بچوں کو رسم الخط سکھائیں‘ انہیںیہ ہر حال میں پڑھائیں‘انہیں بولنے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی سکھائیں۔مہمان خصوصی بالینددویدی ‘ ضلع اقلیتی بہبود افسر نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ اُردوسے زیادہ شریں اور خوشبودار زبان کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اگر مانا جائے کہ اُردو صصرف مسلمانوں کی زبان ہے تو آج بھی انتی بڑی تعداد میں اُردو پڑھنے او رلکھنے والے غیرمسلم نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہاکہ آج انگریزی کی وجہہ سے اُردو او رہندی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور اس کی اہم وجہہ روزگار فراہم کرنے والے زبان بن گئی ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ محض حکومت پر شکوہ کرنے یا پھر سمینار منعقد کرنے سے اُردوکا فروغ ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے ہمیں زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ضیااللہ صدیقی‘غفران‘ نسیم اور نثار احمد نے سمینار میں اپنے مقالے پیش کئے۔
اس موقع پرقاری حسنین دہلوی کو علامہ اقبال ایوارڈ سے سرفراز کیاگیا۔ غفران نسیم نے پروگرام کی نظامت کی۔ سمینار کے کنونیر عبدبخاری نے مہمانوں کا استقبال کیاجبکہ فاونڈیشن کے صدر نثار احمد نے اظہار تشکر پیش کیا۔