ہم ایک جیسے نہیں ہیں‘ مگر ارویندکجریوال سے کافی متاثر ہوں۔ کملاہاسن

ایکٹر اورمکل نیدھی میایم پارٹی( ایم این ایم) کے بانی کملاہاسن نے کہاکہ ریاست تاملناڈو نے انہیں سیاست میں داخل ہونے کے لئے حوصلہ دیا ہے‘ بی جے پی عدم روداری کا الزام بھی عائد کیا۔
کملاہاسن کو تامل سنیما میں کی ایک بڑی شخصیت ہیں‘ انہوں نے حال ہی میں سیاست میں قدم رکھا ہے۔

پچھلے ہفتے اپنی پارٹی ( ایم این ایم) کو رجسٹرار کروانے کے بعد ہاسن نے کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی اور پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کی ۔

انہوں نے منوج رام چندرن اور پرشانت جھا سے اپنی تحریک ‘ دنیا کے نظریہ‘ تاملناڈو کے حالات اور قومی سیاست پر بات کی۔

سیاست میں آپ کے داخلے کی تحریک کیاہے؟
میری ریاست کے حالات نے مجھے حوصلہ دیا ہے۔

میری عظیم ریاست کا میری آنکھوں کے سامنے تیزی کے ساتھ نیچے آنا مجھے سیاست میں آنے پر مجبور کردیا ہے۔ میں تاملناڈو کا فرد ہوں‘ یہ کوئی پیروکارانہ ذہنیت نہیں ہے‘ یہ عملی حالات ہیں جو میں ہوں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ برٹش حکمرانی کی طرح حالات خراب ہیں‘ مگر کچھ اس سے بھی خراب حالات ہیں۔چیزیں خراب ہونے تک ہم کیوں انتظار کریں؟۔

تاملناڈو میں تمام وعدوں اب تک پوری نہیں ہوئے۔میں بچپن سے موقع کے متعلق سن رہاہوں‘ مگر چیزیں اب بھی جوں کے توں ہیں۔مجھ کوخود اپنی کمپنی چلانے کے بعد او ردیگر ریاستوں کی کامیابی دیکھنے کے بعد اس بات کا احساس ہوا ہے۔

تاملناڈو کے موجودہ حالات میں ایسا کیا ہے جو بے چینی کا سبب بناہے؟
بدعنوانی ‘ مکمل طور پر کھلے عام بدعنوانی کی مارکٹ۔ اب کچھ عرصہ تک ریاست میںیہ کیاجارہا ہے ۔ اب لوگوں اس کو مستحکم کرنے کے بات کررہے ہیں جو اور بھی خطرناک ہے۔

تازہ سیاست داں کے باوجود میں خود کو ’سیاسی مشکلات‘سے دوچارکرتاہوں۔یہ ایک مہذب ٹائٹل ہے۔

مگر تاملناڈو میں ٹھیک نہیں ہے جو خودکو’عظیم ثقافت‘ کا حصے کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ اس ٹائٹل کے دعویدار ہیں۔یہاں پر کئی ایسے نوجوان ہیں جو اس طرح کاکام کرنا چاہتے ہیں۔

وہ سیاست میں داخلہ لینا چاہتے ہیں‘ یہ وہی تبدیلی ہے جو میں دیکھ رہاہوں۔مجھے پہلے سیاست میں داخلہ لینا چاہئے تھا ‘ یہی میرے افسوس کی وجہہ ہے۔

مگر اب میں خوش ہوںیہ دیکھ کر کئی اسٹوڈنٹس ریاست کو بنانے میں حصہ لینے کے لئے بے چین ہیں۔

جئے للیتا کی موت کروناندھی کی بڑھتی عمر او رصحت کے پیش نظر ان کے رشتہ داروں کی بدسلوکی سیاست میںآپ کے داخلے میں دلچسپی اور صحیح وقت تو نہیں ہے۔
یہ ایک مناسب وقت تھا۔ میری سیاست اسوقت شروع ہوگئی تھی جب میں نے 2011میں فلم کمپنی( راج کمل فلمس انٹرنیشنل) کے طور پر تاملناڈو حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیاتھا۔

میرے جیسے بزنس کا چھوٹا وقت بھی کسی نے تاملناڈو حکومت کو نہیں دیا ہے۔

اس کے بعد میں سیاسی دباؤ کا بھی ایک متاثرفرد ہوا ہوں ‘ مگر غلطی سے۔وشواروپم میں بھی غلطی سے ۔

میری فلم ہئے رام جو مہاتماگاندھی کے قتل پر تھی جن کے متعلق مجھے ڈر تھا اور پیشن گوئی بھی کی تھی۔ یہ وہ فلم ہے جس کی آج کے دور کی ضرورت ہے۔ میں نہیں جانتاکہ اگر اب میں فلم بناؤں گاتو دور ہوجاؤں گا۔

مگر ناتنقید کرنے والوں کا ماننا ہے کہ آپ وہاں جئے للیتا اور کروناندھی کو آ پ راست پسند کرنے سے ڈرتے ہیں
فلم پروڈیوسر کے طور پر میں نے انہیں بہت کم ہی پوڈیم دیا ہے۔

میں سیاسی پلیٹ فارم پر بھی نہیں تھا۔ وہ مجھے کسی بھی وقت کچل سکتے تھے‘ جس کے انہوں نے کوشش بھی کی تھی۔تاملناڈو جانتا ہے میں نے کن مشکلات حالات کا سامنا کیاہے۔ لہذا یہ سب کے بارے میں نہیں ہے ‘ یاپھر کسی کی بہتری کے متعلق نہیں ہے۔

تاملناڈو میں ہمیشہ شدت پسندی کی سیاست رہتی ہے ‘ مگر اب اس میں مزیداضافہ ہوا ہے۔ آپ اس تبدیلی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
میں سمجھتا یہ بہت اچھا ہوا کیونکہ شدت پسندی کی سیاست ہی اصل وجہہ ہے جس کی مرکزیت کو لے کر مکل نیدھی مائم نے وکلات کی ہے۔

تاملناڈو میں بڑا دشمن کون ہے؟ڈی ایم کے( ڈرویڈا مونیتر کازیگم) یا پھر اے ائی ڈی ایم کے( ال انڈیا انا ڈراویڈا مونیتر کازیگم)؟۔
میں سمجھتا ہوں ہر پارٹی کے اپنے ہی دشمن ہیں‘ جو خود کو برباد کررہے ہیں۔ جوکوئی بدعنوان ہے اس کو نشانہ بنانے کے لئے منتخب کیاجاتا ہے ۔

دونوں پارٹیاں اس کام میں ماہر ہیں۔

کیا آپ نہیں سمجھتے کہ مضبوطی کے لئے انتخابات سے قبل ایم این ایم منظم سیاسی جماعتوں جیسے ڈی ایم کے اور اے ائی ڈی ایم کے سے کوئی مفاہمت کریگی؟
میں اپنی شناخت بطور کملا ہاسن استعمال کررہاہوں اور سیاست میں نشیب فراز نئے نہیں ہیں۔

اس سے قبل بھی ایسا ہوا ہے۔ این ٹی آر( سابق چیف منسٹر آندھرا پردیش اور تلگودیشم پارٹی کے بانی این ٹی راما راؤ) کو لیں۔

میں پرستاروں کے کلب کو37سال قبل تحلیل کردیاگیا اوراس کو نراپانی ایکم( فلاحی تحریک ) میں تبدیل کردیا گیا جو اس وقت 50,000تھے اب وہ 15لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے۔وہ زمین سے جڑے ہوئے لوگ ہیں۔

کسی ایک پارٹی کا نام بتائیں ریاست میں جس کے پاس اتنی تعداد میں لوگ ہیں؟۔ میں ہر چیز کااستعمال میرے قانونی دائرے میں کرونگا۔

مجھے بگ باس شور کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ میں اس پروگرام کااستعمال ہرہفتہ5.2کروڑ لوگوں تک رسائی کے لئے کررہاہوں۔ میں وہ کام کرنے جارہاہوں جو میرے بعد بھی جاری رہے گا۔

آپ کی پارٹی کے وہ کون سے سخت اصول ہیں جس پر کسی قسم کی کوئی بات چیت ممکن نہیں ہے؟
ہم نہ صرف باتیں کررہے ہیں بلکہ بدعنوانی کے خلاف بات اور کام دونوں کررہے ہیں۔ نصب پیمانہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔

میں وہ شخص ہوں جس کے ٹیکس کا ایک روپیہ بھی باقی نہیں ہے۔ میں ایک اچھی اور مہنگی کار چلاتاہوں۔

اگر میں ٹیکس میں چوری کرتاتو میں ہوسکتا ہے میرا ذاتی ہوائی جہاز رہتا۔ میں کئی ارب پتیوں کو جانتاہوں جو ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔

میں ایسے ارب پتیوں کو بھی جانتاہوں جومیری جیسے دس کمپنیاں خرید سکتے ہیں۔ سیاسی قائدین نے بھی عوام کی آواز سننا بند کردیا ہے ۔

وہ زمینی سطح کی بات کرتے ہیں مگر ان کی نظر زمین پر نہیں ہے جہاں سطح کو تنہا چھوڑ دیا گیاہے۔ ہم نہایت سنجیدگی کے ساتھ تعلیم‘ کسانوں ‘ فلاح وبہبود ریاستی عوام کے ساتھ مسلسل رابطہ پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔

آپ بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کی بات کرتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ کئی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ الیکشن میں اس کا آپ کو سامنا کرنا پڑیگا۔ اپنی معاشی ماڈل کیاہوگا؟

یہ ٹیکس ادا کرنے والے ہی ہیں جو سیاست دانوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ اوسط ٹیکس ادا کرنے والے ہی مجھے مالیہ فراہم کریں گے۔

ہم ان کے ساتھ ملکر پلان کریں گے اور میرے پارٹی میں سرمایہ کاری ہوگی۔ میرے اکاونٹس کی کوئی بھی جانچ کرسکتا ہے۔

اگر ہمارے پاس تین سو بریانی کے استعمال کا لکھا ہے تو میں وہ بریانی کس نے کھائی ہے وہ بھی آپ کو بتاؤں گا۔فی الحال پارٹی میرے پیسے سے چل رہی ہے اور لوگ جو ہمدردی کے ساتھ پیسے لاکر دے رہے ہیں اس سے شہہ نشین تیار کیاجارہا ہے۔

اسٹیج پر ایسے لوگوں کا نام بھی ہم پیش کررہے ہیں۔ جب پیسہ آتا ہے تو چیزیں پیدا ہوتی ہے ‘ جہاں پر لوگ دیکھ سکتے ہیں۔
دہلی چیف منسٹر ارویندر کجریوال سے کوئی حوصلہ لیاہے؟

ان کی پارٹی کی تیزی عوام کی فلاح وبہبود ہے ‘ مخالف بدعنوانی ان کے کام کا اہم حصہ ہے۔لوگ دیکھ سکتے ہیں لی کون ییو( سنگا پور کے پہلے وزیراعظم) او رارویندکجریوال محفوظ تھے کیونکہ وہ چھوٹے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

میں نے ان سے سیکھا ہے۔ جو مجھ سے آگے جاکر کام کرتا ہے اس میں ضرور سبق سیکھتاہوں۔ ہم میںیکسانیت نہیں ہے۔ مگر میں کجریوال سے متاثر ہوں۔ میں پینارائی وجین سے بھی لایا ہے ‘ کیرالابھی تاملناڈو سے چھوٹا ہے اور انہو ں نے بہت سارا کام کیاہے۔

چندرا بابو نائیڈو( آندھرا پردیش چیف منسٹر) لوگوں کے لئے کچھ ہٹ کراچھا کررہے ہیں۔ انہو ں نے تقسیم سے شروع کیا اور تیزی کے ساتھ تعمیر کررہے ہیں۔

انہو ں نے حیدرآباد میں اس ثبوت دیا اوراب امرواتی میں وہی کام دوہرا رہے ہیں۔ ہمارے لئے یہ بڑی مثالیں ہیں تاکہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں اورہم ان سے متاثر ہیں اور رابطے میں بھی ہیں۔

رجنی کانت بھی سیاست میں داخلہ لے لیاہے اور وہیں آپ بڑے پیمانے پر مرکز کے بائیں جانب کھڑے دیکھائی دیتے ہیں‘ وہ ایسے شخص ہیں جو مانتے ہیں کہ مرکز کے نظریات کو دائیں جانب سے دیکھتے ہیں۔

آپ کو کوئی نظریہ ہے۔ رجنی کانت نے تھوتھوکوڈی احتجاجیوں کو ملک کاغدار قراردیا تھا اس پر کوئی تبصرہ؟
میں اپنی ایک پارٹی چلاتاہوں اور میں اپنے منشور پر کام کررہا ہوں اتنا جلدی میں کیوں باہر اجاؤں۔ رجنی کانت کی کوئی مصدقہ پارٹی نہیں ہے۔

جب وہ سامنے ائیں گے اور کہیں گے وہ کیانمائندگی کررہے ہیں ‘ پھر ہم اس پر بات چیت کریں گے۔ یہ بہت جلد ی کی بات ہوگی اگر میں اس کے متعلق کوئی بات کرونگا۔ تھوتھوکوڈی کے متعلق ان کا کیا بولنا تھا اس کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہے ‘میں نے تھوتھوکوڈی احتجاج میں حصہ لیاتھا۔

میں لوگوں کے ساتھ وہاں بیٹھا او ران کے مصیبت کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ ریاستی حکومت عوام مخالف ہے ‘ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں
تاملناڈو حکومت کے حالیہ احتجاجی منعقد کرنے کو آپ کیاسمجھتے ہیں؟
مذکورہ ریاستی حکومت کو بے وقوف بنارہی ہے ۔ قانون توڑ نے کے حوالے سے ایک بار بھی ماحولیاتی نظریہ سے تھوتھوکوڈی اور چینائی۔ سیلم ایکسپریس وے جیسے حالات پر ایک بار بھی توجہہ نہیں دی ۔

کارکن تبدیلی کے لئے آتش فشاں ہوتے ہیں۔ انہو ں نے طلبہ کو بھی نشانہ بنایا۔ تاملناڈو تیزی کے ساتھ پولیس اسٹیٹ بن رہا ہے۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے ‘ پچھلے بیس سالوں م

یںیہ چیزیں وقوع پذیرہوئی ہیں
تاملناڈو کی 234اسمبلی سیٹوں پر مقابلے کے لئے آپ تیار ہیں؟
جی ہاں مگر ہم اس با ت پر غور کررہے ہیں کہ کس طرح کا الائنس عمل میں آتا ہے‘ ہم مرکز ی رول ادا کریں گے اور رائے کا خیرمقدم کرتے ہیں مگر اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی دوسری راہ پر چل رہے ہیں۔ ہمارے پاس مضبوط اصول ہیں۔

مگر مرکزیت اصل منشاء ہے۔ مرکزیت کی فرانس ‘برازیل ‘ چیکوسلواکیہ اور اس کا بڑھتا رحجان امریکہ تک پہنچ گیاہے۔

تو پھر آپ نے ڈی ایم کے سے اتحاد کے دروازہ کھلے رکھے ہیں؟
چلو دیکھتے ہیں ہم حقائق پر کام کرنے والے لوگ ہیں

قومی سطح پر آپ بی جے پی کے مخالف مانے جاتے ہیں۔ ان کی سیاست پر آپ کو کیااعتراض ہے؟
مجھے ثفافتی اجارہ داری سے نفرت ہے۔ یہاں تک کے میرے فلمو ں میں بھی۔ میں نے مصالحہ فلموں کے خلاف بھی کام کیاہے۔ ہمارا تنوع ہمیں متحدکرتا ہے۔

بی جے پی ان نظریا ت کے مقابل چل رہی ہے۔ تاملناڈو کو بی جے پی کے لئے آخری چیلنج سمجھا جاتا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ کئی لوگوں نے ڈرویڈین سیاست کو نہیں سمجھا۔ یہ انصاف پارٹی کے ساتھ شروع ہوا ‘ وہ بھی برٹش رول کے دوران مدراس پریسڈنسی میں جہاں پر غیربرہمن دانشواروں نے ہاتھ ملایا۔

انگریزوں کا ماننا تھا کہ یہ مذکورہ سادھوسماج انہیں لوگوں سے راست طور پر جوڑنے کاکام کریگا۔ انہوں نے کلاس کے ڈھانچے پر طبقے کو غلط انداز میں دیکھا۔ ان کے غلط بیانی کو جسٹس پارٹی نے چیلنج کیا۔

یہا ں سے ڈراویڈا کازیگم نے ائیڈیاز حاصل کئے ‘ نشان اور نگ لیا۔

مجوزہ2019کے عام انتخابات کے متعلق آپ کی کیارائے ہے؟ بی جے پی کے پاس قیادت ہے ‘ وہیں دوسروں کے پاس کوئی ایک مشترکہ لیڈر نہیں ہے۔
میں بھی اس بات کا مطالعہ کررہاہوں۔ بڑا مشکل ہے۔ کسی کو تو اٹھنا پڑیگا۔

اگر ایک بڑے فرنٹ کی تشکیل عمل میںآتی ہے تو کیاقومی اپوزیشن کے طور پر آپ خود کو دیکھ رہے ہیں ؟
یہ خراب ائیڈیا نہیں ہے۔ یہ ایک مثالی صورت حا ل ہے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی کے اقتدار میںآنے کے بعد شمالی اور جنوبی ہندوستان میں خلش بڑی ہے؟جنوبی ریاستوں کے وزیرمالیہ 15ویں فینانس کمیشن میں حوالے کے طور پر ایک ساتھ نظر ائے۔

وہ ہمیشہ اس کے متعلق بات کرتے ہیں۔ یہ ملک کا تنوع ہے جس کے متعلق ہم بات کررہے ہیں‘ ملک کے لئے یہ ایک بہتر ہے۔

ہندوستان کومتحد ہونے اورمنفرد سونچنے کے لئے چھوڑ دینا چاہئے۔

یوپی ‘ ایم پی او ربہار جیسی ریاستیں ایک ساتھ آرہی ہیں۔ہم ایک قومی ترانہ گارہے ہیں جو ہماری زبان میں نہیں ہے۔

مگر مجھے خوف ہے کہ آج کی تاریخ میں ہمارے اتحاد کو خطرہ لاحق ہے۔مہاتماگاندھی سارے ملک کے لئے مہاتماگاندھی ہی ہیں۔ ہم انہیں شمالی ہند کے باشندے کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔

بی جے پی کاماننا ہے کہ وسیع ہندو کلچر اور تمدن اس ملک کومتحدکریگا۔ کیاآپ بھی ایسا مانتے ہیں؟
ویداس میں ہندو لفظ کہاں پر لکھا ہوا ہے؟یہ ادی شنکر کی شان ماتھا ستھاپانا سے شروع ہوا ۔

یہاں تک کہ انہو ں نے بھی ہندو لفظ کا استعمال نہیں کیا۔

مذہب میں بھی تنوع کو برقرار رہنے دیں