ہمدردی کے چاردن۔ بقلم شکیل شمسی

نیوزی لینڈ کی دومسجدوں میں پچاس مسلمانوں کو شہید کئے جانے کے واقعہ کے بعد ساری دنیا کے انسانیت نوازوں نے جس قدر ہمدرد ی کا مظاہرہ کیا تھا ابھی اس کو چار دن ہی گمرے تھے کہ یوروپ کے ایک ملک نیدرلینڈ کے تریچٹ شہر سے ایک خبر آگئی کہ ایک ترجی نژاد بندوق بردار نے ٹرام میں سر کررہے تین لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا او رپابچ کو زخمی کردیا۔

جس کی جانکاری ملتے ہیں ملتے ہیں مغربی میڈیا کو اسلام کے خلاف پروپگنڈے کا موققع مل گیا اور اس نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے اس واقعہ کو جہادی دہشت گردی قراردینا شروع کردیا۔

مجھے تو حیرت تھی کہ سی این این جیسا ذمہ دار میڈیا ہاؤس کے ایک پروگرام میں بار بار ایک شخص اس کو جہادی دہشت گرد کہہ تھا حالانکہ بعد میں معلوم ہوااس شخص نے خاندانی اختلافات کی وجہہ سے گولی چلائی تھی۔

اس معاملے میں بہت عجلت سے کام لینے کی شاید ایک وجہ یہ تھی کہ کرائسٹ چرچ کے واقعہ کے بعد دنیابھر میں یہ پیغام عام ہورہاتھا کہ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ خود دہشت گردی کاشکار ہیں اور کا تور کرنابہت ضروری تھا۔مغربی میڈیا اس بات سے اچھی طرف واق ہے کہ مسلمانوں کی امیج اگر درست ہونے لگے گی تو اسلام کو پھیلنے سے کیسے روکا جاسکے گا؟۔

ان کو اس بات کابھی علم ہے کہ سوشیل میڈیاپر یہ بات بھی عام ہوچکی ہے کہ نیوزی لینڈ میں صرف تین چاردنوں کے اندر ساڑھے تین سولوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔

یہاں پر یہ بات کہتا چلوں کہ 80کے دہائی کے اوائل میں ایک برطانوی براڈ کاسٹنگ کمپنی نے شمشیر اسلام کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی تھی‘ حالانکہ اس وقت تک کہیں بھی نہ تو دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا تھا نہ دنا نے خودکش بمباروں کے بارے میں سناتھا۔

اس فلم کا پہلا جملہ تھا ’’مغرب میں اسلام سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذمت ہے) ظاہر ہے تیزی سے پھیلنے والے مذہب کو روکنے کے لئے ضروری تھا کہ اس کی تعلیمات کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کئے جائیں۔

دنی کو بتایا جائے کہ اسلام امن کامذہب نہیں ہے‘ اسلام کردار سے نہیں تلوار سے پھیلا ہے۔

اہل مغرب کی پوری کوشش یہی رہی کہ اسلام کی ایک ایسی شکل دنیا کے سامنے پیش کی جائے کہ جس میں خوان خرابے کے علاوہ کچھ نہ ہو۔

اسی سازش کے تحت ملاؤں کی ایسی فوج تیار کی گئی جوجذباتی مسلمانوں کے دماغ میں زہر بھر سکے۔پھر ان ملاؤں کی مدد سے جگہ جگہ پر ایسے گروہ کھڑے کئے گئے جو بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کو عین عبادت سمجھتے ہیں۔

انسانوں کو سلامتی کی دعادینے والے مذہب کو بندوقوں ‘ بموں او رآرڈی ایکس کا مذہب بنانے کی کوشش کی جانے لگی۔ اسلام کی شبہہ خراب کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کو تباہ کرنے کا بھی ناپاک پلان بنایاگیا اور ہنستے کھیلتے خوشحال ملکوں کو چند ہی برسوں میں ایک وسیع وعریض کھنڈر میں بدل دیاگیا۔

کتنے ہی شہروں میں سڑکیں مقتل میں تبدیل ہوگئیں ۔خاص بات تو یہ رہی کہ مرنے والے بھی مسلمان تھے او رمارنے والے بھی مسلمان ہی تھے۔

حالانکہ اس کے پیچھے اہل مغرب کا دماغ کام کررہاتھا۔ کتنے ہی صیہونی اور عیسائی اسلام قبول کرنے کا ناٹک کرکے قاتلوں کے گروہوں کو چلانے لگے۔

کیاالقاعدہ کے نائب سربراہ یحییٰ ایڈم کو کوئی بھول سکتا ہے جس نے صیہونی مذہب چھوڑ کر اسلام کی نقاب اوڑھ لی اور خون بہانے کو خوب بڑھاوادیا ؟۔پھر وہ کہاں غائب ہوگیا کسی کو نہیں معلوم ‘ بعد میں امریکہ نے اسے ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا۔

اسی طرح داعش اور النصر کے ساتھ مل کر لڑنے کے لئے یوروپ او رامریکہ سے ہزارو ں سفید چمڑی والے غیر مسلم شام او رعراق میں خون بہانے کو ائے اور مسلمانوں کا خون بہانے کے ساتھ اسلام کو بدنام کرتے رہے۔ہندوستان میں بھی یہی ہوا۔

یہاں بھی ابھینو بھارت نے مسلمانوں کے بھیس میں اجمیر‘مکہ مسجد‘ مالیگاؤں اور سمجھوتا ایکسپریس میں بم دھماکے کئے ۔

وہ تو کہئے کہ ہیمنت کرکرے نے اس کا بھید کھول دیا ورنہ یہ سب دھماکے کے بھی مسلمانوں کے نام ہی لکھے گئے ہوتے۔ امید ہے کہ ان چند حقائق سے واقف ہونے کے بعد آپ کو دہشت گردی کا اصل سبب سمجھ میں آگیا ہوگا۔