ایوارڈ یافتہ ممتاز صحافی برکھا دت نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اس حساس کیس سے خو د کو دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ جس میں سیاسی نعرہ بازی یا نمبر کے لئے کام کیاجائے۔ہمیں اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ آخر کا ر یہ ہے چھوٹی بچی کے متعلق ہے‘ اس کو جب اغوا کرکے سفاکانہ طور پر چھیرا ‘ پھاڑ کرکے گھنے جنگل میں پھینک دیاگیا ۔ وہ ایک معصوم بچی تھی۔
ہمارے ملک میں قومی پرچم کی بے حرمتی ‘ بدسلوکی اور کم اعزاز دینا جرم ہے۔ اس کے لئے سزاکے طور پر جرمانہ او رجیل دونوں سنائے جاتے ہیں۔ ہماری پولیس روزہ مرہ کی باتوں پر عمل نہ کرنے والوں کو ملک کا غدار قراردینے میں بھی تاخیر نہیں کرتی۔
اور اتفاق کی بات ہے کہ اس قسم کے باتیں عام ہوتی جارہی ہیں۔لہذا قومیت کے اس دور میں ‘ جہاں پر قومیت پر مقابلہ آرائی ہورہی ہے وہیں کس طرح جموں او رکشمیر میں ایک شخص جو کہ عصمت ریزی او ر قتل کا ملز م ہے اس کی حمایت میں نکالی جانے والی ریالی میں ترنگا کا استعمال کیاجاسکتا ہے؟ایک اٹھ سال کی معصول لڑکی جس کا تعلق چرواہے بکھیروالا کمیونٹی سے تھا جس کا اغوا کرکے جنسی استحصال کرنے کے بعد قتل کردیاگیا ۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ جب لڑکی کی نعش ان کے حوالے کی گئی تو اس کے جسم پر جلنے کے نشان تھے کے علاوہ اس پر کئے گئے تشدد اور جنسی استحصال کے نشانات واضح طور پر دیکھائی دے رہے تھے۔ اس واقعہ کو سال 2012میں دہلی کے اندر ہوئے اجتماعی عصمت ریزی کے مماثل قراردینا غیر واجبی نہیں ہے۔
ا س کیس میں ملزم کے طور پر ریاست کی پولی سنے ایک اسپیشل پولیس افیسر ( ایس پی او) جس کا نام دیپک کھاجوریہ ہے کو گرفتار کیا ہے۔ مگر خود ساختہ دائیں بازو کے گروپ جس کو ہندو یکتا منچ کہاجاتا ہے کھوجوریہ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ۔ گرفتار ی کے خلاف پوری آزاد ی کے ساتھ سڑک پر اس کیس کے ضمن میں احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں میں قومی پرچم تھا اور وہ بڑے زور شور کے ساتھ حب الوطنی کے نعرہ’’ بھارت ماتا کی جائے‘‘ لگارہے تھے۔اگر یہ قوم پرستی کی توہین نہیں ہے ‘ تو کیا؟اب تما م حب الوطن کہاں ہیں؟غیر ارادی طور پر پرچم کو اوپر نیچے کرنے والوں‘ اپنے شر ٹ یا ڈریس پر قومی پرچم پہننے والوں‘ یاد کرو پرچم کا ڈریس تیار کرنے والی ڈیزائنر مالینی رامانی کے خلاف پولیس کاروائی کو ‘ اور ان کے خلاف کریمنل کیس دائر کرانے والے وہ بہادر کہاں ہیں؟یہ تو بری بات ہے کہ کیااب ہم لباس کے طور پر قومی پرچم کا استعمال اور حب الوطنی پر مشتمل نعرے بازی صرف نفرت پھیلانے کے لئے کریں گے؟عام طور پرہمارے پرائم ٹائم مباحثہ عاجلانہ فیصلوں افسوس ناک ہیش ٹیاگ کے ساتھ استعمال کئے جارہے ہیں۔
کہاں ہیں وہ قوم پرست ٹیلی ویثرن اینکرس جو اچانک چھپ گئے ہیں؟کیوں اب کوئی یہ ٹوئٹ نہیں کرتا ہے کہ ہندو ایکتا منچ کو پاکستان چلے جانا چاہئے۔ یہ ٹوئٹر کے چاہنے والے حب الوطنی کے امتحان میں کہیں ناکام تو نہیں ہوگئے ہیں؟۔ ہندو ایکتا منچ نے نہ صرف ہمارے پرچم کی بلکہ یونیفارم کی بھی توہین کی ہے۔ مذکورہ جموں او ر کشمیر کے پولیس بہادر اور ہندوستان کی سب سے غیرمعمولی فورس ہے۔ اس کے افیسر دہشت گرد حملوں پر جوابی کاروائی میں ماہر ہیں۔ اور وہ بھی اپنی برداری کی حفاظت میں ناکام رہے ہیں۔
عصمت ریزی او رقتل کے الزامات میں گرفتار ایس پی اوس کے بچاؤکا انتخاب کرتے ہوئے شدت پسندوں کے اس بے شرم گروپ نے بہادر اور جانباز سپاہیوں کو کمزور بنانے کی کوشش کی جو پوری جرات کے ساتھ قربانی کے لئے کھڑا ہوئے ہیں۔حقیقت پسندی کی بات کہوں تو میں ’اینٹی نیشنل ‘ کے لفظ کا عام بحث میں استعمال نہیں کرتی۔ میرے لئے یہ عوام کی آزادنہ سونچ اور بحث کو ختم کرنے لئے استعمال کئے جانے والا ہے۔
اگر میرے لئے اس کا استعمال میرے اس مضمون میں کرنا پڑے گا تو اس لفظ کو ہندو یکتا منچ سے منصوب کرونگی۔اور کیا آپ ایسے لوگوں کو کیاکہیں گے جو کسی ایک معصوم لڑکی کی عصمت ریزی کے واقعہ ہو فرقہ وارانہ رنگ دیں گے؟ ایسے لوگوں کو آپ کیاکہیں گی جو ایک عصمت ریزی کاشکار ایک معصوم لڑکی کی قبر کو ہندو او رمسلمانو ں کے درمیان جنگ کی وجہہ بنائیں گے؟اس کے علاوہ آپ ایسے لوگو ں کو کیاکہیں گے جموں او رکشمیر کے درمیان کی خلاء کو بڑھانے کاکام کریں گے۔ وہ تقسیم جو ہندوستان کی قومی حکمت عملی دلچسپی پر کار ضرب ہے؟کون سا دوسرا لفظ آپ ان کے استعمال کریں گے جو گجربکھیروال سماج( جو علاقے کا اقلیتی طبقہ ہے) او ربے چینی کے ساتھ اپنے بچی کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کررہا ہے؟۔
ایک مبینہ عصمت ریزی کرنے والے کی حمایت میں منظم طریقے سے ترنگے کا استعمال کرنے والوں کے خلاف محبو بہ مفتی کے ساتھ رویہ کو دیکھ کر کچھ حدتک مسرت ہوئی جبکہ بی جے پی خود کوہندو یکتا منچ سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہے جس کے لیڈر وجئے شرما سال2013-2015کے درمیان میں ضلع کتھوا کا صدر تھا۔
یہ قومی پرستی کے لفظ کا طاقت کے لئے استعمال کرتا ہے اور شرما کے نام میں شرم کالفظ کی صاف طور سے جھلک رہا ہے۔اس افسوسناک واقعہ کے بعد میں مرکزی سیاسی پارٹیو ں کے ساتھ جموں کشمیر کی دائیں بازو تنظیموں اور وادی کے علیحدگی پسند گروپوں سے بحث کے لئے تیار ہوں کہ انہیں اس کیس سے اپنی دوری کو برقرار رکھنا چاہئے۔
یہ وقت نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے نمبر کے لئے یا پھر سیاسی نعرے بازی کے کریں۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات کے سبب ریاست میں دو مذاہب اور کے لوگوں اور طبقات میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بڑھی ہے۔آخر کار ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ ایک معصوم لڑکی کے متعلق ہے جس کی اغوا کرکے بے رحمی کے ساتھ قتل کیاگیا اور گھنے جنگل میں اس کی نعش پھینکی گئی گاؤں کے ایک تالاب کی کنارے جو دفن ہے ۔ وہ ایک معصوم تھی۔وہ ہماری بچی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں بات کرنے او رانصاف کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ یہی ہمارے پرچم کا موقف ہے