’ہمارے بغیر آپ دو ہفتے بھی اقتدار نہیں بچا سکتے ‘

پروٹوکول اور آداب بالائے طاق ، سعودی کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں

دوبئی؍ مسی سپی۔ 3 اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے (جیسا کہ اُن کی فطرت ہے) سعودی عرب کے شاہ سلمان کے خلاف بھی آداب اور پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک غیرسفارتی بلکہ غیراخلاقی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، بیان دیتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ’’امریکی فوج کے تعاون کے بغیر سعودی فرمانروا دو ہفتوں تک بھی اقتدار پر برقرار نہیں رہ سکتے‘‘۔ دراصل یہ ریمارک سعودی عرب (جسے امریکہ کا حلیف ملک تصور کیا جاتا ہے) کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار ہے تاہم ٹرمپ اپنی ناراضگی ظاہر کرنے میں بھی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک سوپر پاور ملک کے سربراہ ہیں۔ ساؤتھاوین (مسی سپی) میں ایک ریالی کے دوران یہ بات کہی۔ یاد رہے کہ خام تیل کی قیمتوں میں گزشتہ چار سال کے مقابلے جاریہ سال بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ قیمت 100 ڈالرس فی بیارل تک پہنچ جائے گی۔ ٹرمپ نے اوپیک اور سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ ٹرمپ نے ایران پر جو امتناع عائد کیا ہے، اس کا اطلاق ماہ نومبر سے ہوگا اور اُس وقت تیل کی قیمتیں کیا ہوں گی، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ٹرمپ نے اسلام کے تئیں اپنی نفرت کا اظہار بھی اپنے ریمارک کے ذریعہ کردیا اور کہا کہ ’’سعودی عرب جو خود کو ایک اسلامی مملکت بتاتا ہے جو اسلام کے دو انتہائی مقدس شہروں مکہ اور مدینہ اور اہم ترین مقدس مقام کعتبہ اللہ کا نگہبان ہے، امریکی فوج کے تعاون کے بغیر تاش کے پتوں کی طرح ڈھیر ہوجائے گا۔امریکی فوج ہی سعودی عرب کا تحفظ کرتی ہے، ایسے میں کیا سعودی خود کو ایک مالدار ترین ملک کہہ سکتا ہے؟ میں شاہ سلمان کو چاہتا ہوں، بے حد چاہتا ہوں لیکن یہ بات بھی واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ موصوف، امریکی فوج کے تعاون کے بغیر کچھ بھی نہیں‘‘۔ یاد رہے کہ ٹرمپ اور شاہ سلمان کے درمیان آخری بار 29 ستمبر کو ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی جہاں انہوں نے تیل مارکیٹ میں توازن برقرار رکھنے کیلئے تیل کی معقول سربراہی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا تاکہ عالمی معیشت کو بھی استحکام حاصل ہو۔ بہرحال ٹرمپ کے ریمارک کے بعد سعودی عرب کی جانب سے ہنوز کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے ٹرمپ کیساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دی ہے، حالانکہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے زمانے میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات بہت زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جہاں سے ٹرمپ نے اپنے پہلے بیرونی سرکاری دورہ کا آغاز کیا تھا اور ان کا سعودی میں والہانہ استقبال کیا گیا تھا، خصوصی طور پر ٹرمپ کے داماد اور مشیر جارڈ کوشنر نے ولیعہد محمد بن سلمان سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی ہے جنہیں بلامبالغہ سعودی عرب کا آئندہ بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔ فی الحال امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان جو خلیج حائل ہے، وہ ہے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں۔ سعودی عرب یومیہ 10 ملین بیارلس خام تیل پیدا کرتا ہے۔