مواضعات میں متفقہ قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ جاری، وزیر آبپاشی کی مقبولیت کا ثبوت
حیدرآباد ۔ 2 ۔ اکتوبر (سیاست نیوز) سدی پیٹ اسمبلی حلقہ سے وزیر آبپاشی ہریش راؤ کو بھاری اکثریت سے کامیاب بنانے کیلئے عوامی سطح پر زبردست مہم جاری ہے۔ مختلف مواضعات میں ہریش راؤ کے حق میں متفقہ قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مختلف تنظیموں کی جانب سے ہریش راؤ کو انتخابی اخراجات کے لئے عطیات کی فراہمی نے اپوزیشن حلقوں میں سنسنی دوڑا دی ہے۔ مختلف طبقات کے علاوہ خواتین کی تنظیموں حتیٰ کہ معصوم بچوں نے اپنے خرچ کی رقم ہریش راؤ کے حوالے کردی۔ آریہ ویشیا کی 70 مختلف تنظیموں نے ہریش راؤ کو ایک لاکھ 53 ہزار 816 روپئے کا عطیہ دیا اور اسے انتخابی خرچ کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش کی ۔ خواتین کی مختلف تنظیموں کی جانب سے کٹی پارٹی پر خرچ کی جانے والی رقم کے چیک ہریش راؤ کو پیش کیا گیا۔ خواتین کی جانب سے ہر ہفتہ کٹی پارٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن ان خواتین نے یہ رقم ہریش راؤ کو بطور عطیہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ۔ سدی پیٹ کے بچے بھی ہریش راؤ کی تائید میں پیچھے نہیں ہے ۔ سدی پیٹ ٹاؤن کے دو بچوں نے اپنے والدین اور رشتہ داروں سے اپنے خرچ کیلئے رقم جمع کرتے ہوئے 516 روپئے ہریش راؤ کے حوالے کئے ۔ اس طرح سدی پیٹ اسمبلی حلقہ میں ہریش راؤ کے حق میں عوامی تائید میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ حلقہ کی ترقی کیلئے ہریش راؤ نے جو اقدامات کئے ، ان سے متاثر ہوکر ہر گاؤں میں متفقہ قرارداد منظور کی جارہی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ فلاحی اور ترقیاتی الزامات کیلئے ہریش راؤ کی کامیابی ضروری ہے۔ انہوں نے ہریش راؤ کو ایک لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے منتخب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی دوران پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ہریش راؤ نے مہاکوٹمی کو موقع پرستانہ اتحاد قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی کو ووٹ دینا تلنگانہ کی عزت نفس کو دہلی میں گروی رکھنے کی طرح ہے۔ کانگریس پارٹی کا ہر فیصلہ نئی دہلی سے کیا جاتا ہے جبکہ ٹی آر ایس کے لئے تلنگانہ کے عوام ہائی کمان ہے ۔ عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کی ترقی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ حیدرآباد میں ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود موقع پرستانہ اتحاد کیا گیا تاکہ ٹی آر ایس کو شکست دی جاسکے۔ تلنگانہ عوام اپنے ہمدرد سے اچھی طرح واقف ہیں اور مہاکوٹمی کو مسترد کردیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مخالف تلنگانہ تلگو دیشم سے کودنڈا رام اور کانگریس پارٹی کا اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ تینوں پارٹیاں ٹی آر ایس کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا اتحاد خود ٹی آر ایس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔