ہتھیاروں پر کنٹرول کیلئے یکطرفہ فیصلہ اوباما کے زیرغور

واشنگٹن۔ 2 جنوری ۔ ( سیاست ڈاٹ کام )  امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا کہ ملک میں ہتھیاروں کے ذریعے پر تشدد واقعات روکنے کے لئے وہ یکطرفہ اقدام کریں گے۔ 2016 ء کے آغاز کے بعد عوام سے اپنے پہلے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں اٹارنی جنرل سے ملاقات کریں گے اور یہ جائزہ لیں گے کہ وہ ہتھیاروں پر کنٹرول کیلئے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ امریکی کانگریس تو اس ضمن میں قانون سازی کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے وہ بطور صدر اپنے خصوصی اختیار استعمال کریں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر کو اپنے حریف ریپبلکن جماعت اور ہتھیاروں کے حامی گروہوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنے پڑے گا۔ صدر نے کہا کہ انھیں اس بارے کوئی اقدام نہ کرنے پر بچوں، والدین اور اساتذہ کی جانب سے بہت سے خطوط موصول ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ ہم ہر پر تشدد کارروائی روک نہیں سکتے لیکن ہم کسی ایک کو تو روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اچھا ہے اگر کانگریس ہمارے بچوں کو ہتھیاروں کے تشدد سے محفوظ رکھنے کیلئے کچھ کر لے‘‘۔ صدر نے تسلیم کیا کہ ہتھیاروں پر قانون سازی پر پارلیمان میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور یہی اُن کے دورِ صدارت کی سب سے بڑی ’مایوسی‘ ہے۔

مبصرین کے مطابق صدر بہت سے معاملات میں اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر سکتے ہیں جیسے ہتھیار خریدنے والی کی زیادہ چھان بین وغیرہ۔ منصوبے کو حتمیٰ شکل دینے میں صدر اوباما کو بہت مخالفت کا سامنا کرنا ہو گا۔ دوسری جانب امریکہ میں رائفل ایسوسی ایشن نے ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے آواز اُٹھانے والوں کے خلاف پہلے ہی سے ویڈیو سیریز شروع کررکھی ہے۔ ریاست ٹیکساس میں ہتھیاروں کو ساتھ رکھنے کا قانون بھی ہے جس کے تحت عوام اپنی کمر پر ہتھیار باندھ سکتے یا اپنے بیگ میں رکھ سکتے ہیں تاکہ یہ دیکھا سکیں کہ وہ مسلح ہیں۔ گذشتہ ماہ ریاست میں پولیس کے سربراہ نے صدر کو خبردار کیا تھا کہ امریکیوں کو غیر مسلح کرنے سے انقلانی تحریک شروع ہو سکتی ہے۔ اس قبل کانگریس میں ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق قانون سازی کرنے کی کوشش ناکام ہوئی تھی۔2013 میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن جماعت نے کانگریس میں بل جمع کروایا تھا جس کے تحت ہتھیار کی خرید و فروخت میں زیادہ تحقیقات متعارف کروائی جانی تھیں لیکن یہ قانون منظور نہیں ہو سکا۔