ہاشم پورہ سانحہ : اگر مجرمین کو سزائے موت ہوتی تو زیادہ خوشی ہوتی ۔ 

میرٹھ : ہاشم پورہ شہر میں 1987ء میں ہوئے قتل کے سانحہ کے سبھی ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ ہائی کورٹ نے اس سانحہ پر اپنا فیصلہ سنایا ہے ۔ واضح رہے کہ اس سانحہ میں ۴۲؍ لوگ مارے گئے تھے ۔ ہاشم پورہ انصاف کمیٹی کے صدر اور چشم دید گواہ ذوالفقار نے نے کہا کہ فیصلہ سن کر خوشی تو ہوئی لیکن اگر مجرمین کو سنائے موت ہوتی تو زیادہ خوشی ہوتی ۔انہوں نے فیصلہ دیر سے آنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کیونکہ قاتلین فوجی جوان تھے ۔اس لئے 87ء کے بعد جو بھی حکومتیں آئیں انہوں نے ثبوت اور شواہد مٹانے کی کوشش کی ۔ معاملہ کو دبانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے حق کے فیصلے میں لڑنے والے ہم تنہا تھے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کوئی سیاسی رہنما تھا نہ کو ئی سماجی تنظیم ۔ اس سانحہ کے چشم دید گواہ باب الدین نے کہا کہ میں اس وقت ۱۷؍ برس کا تھا ۔ جب یہ سانحہ پیش آیا ۔اس وقت پچاس کے قریب نوجوانوں کو پی اے سی کے نوجوانوں نے تفتیش کرنے کے نا پر مودی نگر لے جاکر ٹرک کے سامنے گولیاں برسادیں ۔ او ربعض افراد کو ٹرک کے نیچے روند ڈالا گیا ۔اس وقت مجھے بھی دو گولیاں لگی تھیں ۔ لیکن میری قسمت اچھی تھی کہ میں بچ گیا ۔

اس سانحہ میں مارے گئے محمد نثار کی اہلیہ نے بتایا کہ مجھے لڑکیاں ہیں ۔ میں نے تمام عمر محنت مزدوری کر کے اپنے اولاد کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتی ہوں۔ انہوں نے فیصلہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سن کر خوشی ہوئی ہے لیکن پھانسی کی سزا ملنی چاہئے تھی ۔ ان کی لڑکی نے بتایاکہ میں اس وقت صرف ایک سال تھی ۔میں اپنے والاد کو ٹھیک طرح سے دیکھ بھی نہیں پائی ۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے کپڑے سی کر اپنی زندگی کا گذارہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ غربت کی وجہ ہم تعلیم سے محروم رہے ۔