ہادیہ کی محبت اور عدالت عظمیٰ کی ہدایت۔ شکیل شمسی

جب عدلیہ کا تصور کتابوں سے نکل کر کسی صنم کی شکل میں ہمارے سامنے ہوتا ہے فوری طور پر ذہن میںآنکھوں پر پٹی باندھے اور ہاتھ میں ترازولئے ایک دیوی کا مجسمہ ابھرتا ہے ۔ اسی مجسمہ کی بنیاد پر ہی لوگ کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے ‘ لیکن مجسمہ کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھنے کے پیچھے اس کی بصارت چھینا نہیں بلکہ یہ بتانا تھاکہ انصاف صرف قانون کی بنیاد پر ہوگا یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ انصاف مانگنے والا غریب ہے کہ امیر ‘ ہندو ہے کہ مسلمان اور زن ہے کہ مرد مگر ادھر کچھ عرصے سے لگنے لگا ہے کہ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی کالی پٹی اب بھگوا رنگ کی ہوگئی اور بعض معاملات میں انصاف کی دیوی اپنی آنکھوں کی پٹی ہٹاکر یہ بھی دیکھ لیتی ہے کہ انصاف مانگنے والا کس مذہب کا ہے۔

انصاف کی دیوی کی اسی تاک جھانک کا ایک نمونہ کیرالا کی ایک بالغ لڑکی کے معاملے میں دکھائی پڑا۔ واضح ہوکہ اس ملک کے ائین نے ہر لڑکے او رلڑکی کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد جس کے ساتھ جی چائے شادی کرے‘ مگر کیرالا ہائی کورٹ نے کمال ہی کردیا او رہادیہ کی شفین جہاں سے شادی کے مقدمہ کو انصاف کے ماتھے کا کلنک بنادیا تھا ۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ چوبیس سال کی ایک پڑھی لکھی لڑکی کے ایک مسلم لڑکے سے شادی کرنے کے ذاتی فیصلے کو کیرالا ہائی کورٹ نے ( لوجہاد کے نام نہاد الزام کو صحیح مانتے ہوئے)غیر قانونی قراردے کر لڑکی کی شوہر سے الگ اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور کردیاتھا۔

اس سارے معاملے میں لڑکی کے والد نے بہت چالاکی کے ساتھ پہلے تو شادی کو لوجہاد قراردیا اور بعد میں اپنے داماد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی تاکہ لڑکی کو اس سے الگ کروایا جاسکے۔ لڑکی کے والد نے بہت چالاکی کے ساتھ پہلے تو شای کو لوجہاد قراردیا اور بعد میں اپنے داماد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی تاکہ لڑکی کو اس سے الگ کروایاجاسکے۔ لڑکی کے مکا ر والدین نے اپنے داماد پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ ان کی بیٹی کو شام لے کر وہاں چل رہے جہاں میں شامل کروانا چاہتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے لڑکی کی مرضی جاننے کے باوجود اس کو اپنے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی ‘ بلکہ شادی کو لو جہاد قراردے کر قومی تفتیشی ایجنسی سے کہہ دیا کہ وہ لڑکی کے مسلم شوہر کے دہشت گردووں سے روابط کی جانچ کرے۔

آزاد ہندوستان میں شاید یہ پہلی ایسی شادی تھی جس میں عدالت نے اس کے بالغ ہونے کا خیال نہیں کیا‘ معاملہ جب سپریم کورٹ میں پہنچا تو ابتدائی دنوں میں وہاں سے بھی کوئی امید افزا خبر نہیں ائی اور سپریم کورٹ نے این ائی اے سے کہاکہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے ‘ مگر منگل کے روز ہندوستان کے چیف جسٹس کی قیادت میں بیٹھی ایک سہ رکنی بنچ نے کیرالا کی ایک لڑکی ہادیہ عرف اکھیلا کے معاملے میں پھر سے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے یہ کہاکہ این ائی اے یعنی قومی تفتیشی ایجنسی ہادیہ کے شوہر کے بارے میں چاہئے جس چیز کی تحقیقات کرے‘ لیکن ہادیہ کی شادی کی جانچ کرنے اس کا کوکوئی حق نہیں ہے اور اسے اپنا شوہر چننے کا پورا حق حاصل ہے۔ویسے میںیہاں پر یہ بات کہنا لازمی سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کا معاشرہ کسی لڑکی کو محبت کرنے کا قی دینے کا قائل نہیں ہے۔

یہاں کوئی لڑکی محبت کی شادی کرے تو کوئی جملے بازی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی لڑکی اپنی پسند کی شادی کرے تو عام طور پر لوگ کہتے ہیں گھر سے بھاگ کر شادی کی ہے۔ہندو مسلم شادیوں اور لوجہاد کا نام نہاد الزام تو ایک بہانہ ہے ‘ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں محبت شادی کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔

ذات برادری ‘ مذہب دھرم او رامیر غریب کا فرق یہاں ایسا ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے ہر انسان کو ایسا لگتا ہے کہ سرپر سہرا نہیں باندھ رہا ہے کہ بلکہ میدان جنگ میں سرکنانے کو نکل رہا ہے۔محبت کی شادیوں کے معاملات میں اکثر لڑکا لڑکی دونوں کی
جان جاتی ہے مگر زیادہ تر اس کا نشانہ لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔

آنر کلنگ کے جواعداد وشمار دستیاب ہیں ان کے مطابق ہر سال ہندوستانن میں ایک ہزار نوجوان مارے جاتے ہیں‘ یعنی محبت کرنے کے جرم میں ہر دن کم سے کم تین لوگوں کو موت کی نیند سلادیاجاتا ہے ‘ ہادیہ خوش قسمت تھی کہ آنر کلنگ سے بچ گئی۔