ہائیکورٹ نے تکونہ قبرستان کو فی الحال کسی کی ملکیت تسلیم نہیں کیا۔

عدالت نے کہاکہ اگر یہ اراضی وقف بورڈ کی ثابت ہوتی تو سارا خرچ بورڈ سے لیاجائے گا‘ آغاخان فاونڈیشن کو بورڈ کی پالیسی کے مطابق کام کرنے کی ہدایت‘ ڈی ڈی اہ کو وہاں قبضہ نہ ہونے کی ذمہ داری دی گئی‘ رجسٹرار کو سارے خرچ کی رپورٹ دینے کی ہدایت
نئی دہلی۔ نظام واقع تکونہ قبرستان(خسرو پارک)کے معاملہ میں ہائی کورٹ نے اس مذکورہ اراضی کو کسی کی ملکیت تسلیم نہیں کیا ہے ‘ بلکہ یہ بات واضح کردی ہے کہ اگر یہ زمین دہلی وقف بورڈ کی ثابت ہوجاتی ہے تو پھر اس پر جتنا بھی خرچ آیا ہے اس کی ادائیگی دہلی وقف بورڈ کریگا۔اس کے علاوہ ہائی کورٹ نے دہلی وقف بورڈ کی پالیسی کو سامنے رکھ کر آغاخان فاونڈیشن کو کام کرنے کی ہدایت دی ہے ۔

ساتھ ہی ٹی ڈی اے کو فی الحال یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس اراضی پر کسی قسم کا قبضہ نہیں ہونے دے۔ اب اس معاملہ کی اگلی سماعت19فبروری ک وہوگی ۔تکونہ قبرستان میں بلڈوزر چلانے اور سرکاری ایجنسی کی بے جا مداخلت کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر عدالت کا تحریری فیصلہ آج آگیا ہے۔ حالانکہ اس معاملہ میں ایڈوکیٹ سفیان صدیقی کا کہنا ہے کہ دہلی وقف بورڈ نے جو قبرستان کے تعلق سے پالیسی عدالت میں پیش کی ہے اس پر وہ غور کرکے اپنی رائے سے عدالت کو مطالع کریں گے۔

غورطلب ہے کہ وقف بورڈ نے اپنی پالیسی میں کہاتھا کہ کل اراضی میں سے تیس فیصد حصہ میں ہریالی اور ساٹھ فیصد حصے میں تدفین کی جائے گی۔دہلی وقف بورڈ کے وکیل کا کہنا ہے کہ دہلی وقف بورڈ کے لئے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے دہلی وقف بورڈ کی پالیسی کو پڑھ لیا ہے اور آغاخان فاونڈیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ قبرستانن میں بھی تزائین کاری وغیرہ کرے تو دہلی وقف بورڈ کی پالیسی کو مدنظر رکھے۔

اس کے علاوہ حکم نامہ میںیہ بھی کہاگیا ہے کہ اگر قبرستان میں کسی قسم کا ناجائز قبضہ ‘ کوڑا ڈالنا‘ ناجائزتعمیرات وغیرہ کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری فی الحال ڈی ڈی اے کو دی گئی ہے ۔

ڈی ڈی اے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وہاں کسی کاقبضہ نہ ہونے دے۔اس کے علاوہ آرڈر میں کہاگیا ہے کہ اگر یہ زمین دہلی وقف بور ڈ کی ثابت ہوجاتی ہے تو پھر اس زمین پر جو بھی خرچ آیا مثلا سکیورٹی ‘ بلڈوزر چلانے‘ افسران وملازمین کی تعیناتی‘ ملبہ ہٹانے وغیر ہ کا سارا خرچ دہلی وقف بورڈ سے وصول کیاجائے گا۔ اس سلسلہ میں عدالت نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ اس زمین پر کتنا خرچ کیاگیا ہے ۔

یہی نہیں بلکہ متعلقہ ایجنسیوں کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ حلف نامہ کے ذریعہ اپنے اپنے خرچ کے بارے میں عدالت کو مطلع کریں اور اس کی ایک کاپی دہلی وقف بورڈ کے وکیل کو بھی دیں۔خاص بات یہ ہے کہ بلڈوزر چلانے کے بعد ڈی ڈی اے نے وہاں اپنا بورڈ لگایاتھا جس پر وقف بورڈ نے اعتراض کیاتھا۔ اس پر عدالت نے بورڈ سے متعلقہ کورٹ میں جانے کی ہدایت دی تھی۔