گھر میں کھانے کی پریشانی، بچے اسکول نہیں آئیں گے !

اسکول میں گائے اور بھینس کو قید کیا گیا ہے، اترپردیش میں سڑکوں پر آوارہ مویشیوں کا غول
لکھم پور کھیری۔7 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت کی جانب سے اترپردیش میں مسالخ گاہوں کو بند کیے جانے کے باعث اترپردیش بھر میں تمام مواضعات کے اندر مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ مویشیوں کی بہتات کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ ان مویشیوں نے دیہی عوام کا جینا حرام کردیا ہے، کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا جارہا ہے۔ سڑکوں پر مویشیوں کا غول دیکھا جارہا ہے۔ لکھم پور کھیری موضع میں ایک اسکول کے اندر دیہی عوام نے مجبوراً 200 گائیوں کو باندھ رکھا ہے۔ ان لوگوں نے اسکول کے احاطہ کو بمبووں کی مدد سے بند کردیا ہے۔ اترپردیش کے کئی مواضعات میں کسانوں کو اپنی فصلوں کی تباہی کا خوف ہے۔ کئی مواضعات میں چاہے وہ موز کے باغ ہوں یا گیہوں کے کھیت ہر جگہ مویشی گھس کر انہیں تباہ کررہے ہیں۔ آوارہ مویشیوں کی بہتات نے عوام کو پریشان کردیا ہے۔ ایک کسان نے کہا کہ وہ اپنی فصل بچانے کی خاطر رات دن محنت کررہا ہے اور نیند بھی نہیں لے سک رہا ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں موضع کے پردھان سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ مویشیوں کی بہتات کی وجہ سے دیہی عوام نے آوارہ مویشیوں کے غول کو ایک اسکول کے اندر بند کردینے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنی فصلوں کو بچاسکیں۔ اس طرح کے عمل کے ذریعہ وہ سرکاری نظم و نسق کو یہ پیام بھی دینا چاہ رہے ہیں کہ ان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہم لوگ کتنے پریشان ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے موضع میں ان آوارہ مویشیوں کی وجہ سے کئی پریشانیاں لاحق ہوگئی ہیں۔ یہ مویشی اندھادھن طریقہ سے دیگر کئی مواضعات کے کھیتوں میں گھس کر تباہی مچارہے ہیں۔

اس وقت اترپردیش میں گنے کی فصل کا وقت ہے اور یہ مویشی گنے کی فصل کو تباہ کررہے ہیں۔ اسکول میں مویشیوں کو بند کردینے سے متعلق سوال پر کہ آیا اس طرح کے اقدام سے ان کے بچوں کی تعلیم متاثر نہیں ہوگی؟ ایک دیہاتی نے کہا کہ آخر ہمارے بچے کس طرح پڑھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے گھر میں کھانے کے لیے اناج نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان تمام مویشیوں کو ایک شیلٹر میں رکھا جائے یا پھر انہیں سڑکوں سے نکال کر دوسرے مقامات پر منتقل کیا جائے تاکہ ہمارے کھیت محفوظ رہ سکیں۔ ہم نے اس سلسلہ میں کئی مرتبہ کوششیں کی تھیں اور یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کو اس جانب توجہ بھی دلائی گئی ہے لیکن اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ ہمارے پاس پیسہ بھی نہیں ہے۔ کسان روزانہ اپنے گزارے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جو کسان اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے لیے قرض لے چکے ہیں اب وہ پریشان ہیں کہ ان کی فصلیں تباہ ہوجانے کے بعد قرض کس طرح ادا کریں گے۔