گٹلا بیگم پیٹ کی 90 ایکر سے زائد قیمتی اوقافی اراضی کے تحفظ میں کامیابی

اوقافی اراضی کو ذاتی ملکیت قرار دینے کے دعوے کو قبول کرنے سے سپریم کورٹ کا انکار، وقف بورڈ کو نیا اعلامیہ جاری کرنے کی اجازت
حیدرآباد ۔ 25جنوری ( سیاست نیوز) گٹلا بیگم پیٹ کی 90ایکر سے زائد قیمتی اوقافی اراضی کے تحفظ میں تلنگانہ وقف بورڈ کو سپریم کورٹ میں اُس وقت اہم کامیابی ملی جب دو رکنی بنچ نے اوقافی اراضی کو ذاتی ملکیت قرار دینے سے متعلق دعوے کو قبول نہیں کیا اور اس سلسلہ میں ہائیکورٹ کے سابق احکامات کو کالعدم کردیا گیا ۔ جسٹس آدرش کمار گوئل اور جسٹس اُدئے اومیش للت پر مشتمل سپریم کورٹ کے ڈیویژن بنچ نے  وقف بورڈ کو مذکورہ اوقافی اراضی کے سلسلہ میں نیا اعلامیہ جاری کرنے کی اجازت دی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ درخواست گذار کو بھی اس بات کی اجازت دی کہ وہ اراضی پر اپنا دعویٰ دوبارہ پیش کرسکتے ہیں ۔ ایسی صورت میں درخواست گذار کو وقف ٹریبونل سے رجوع ہونا پڑے گا اور اُس وقت تک وقف بورڈ اراضی کے سلسلہ میں نیا اعلامیہ جاری کرسکتا ہے جسے چیلنج کرنا ازروئے قانون آسان نہیں ۔ واضح رہے کہ 1995ء سے گٹلا بیگم پیٹ کی 90 ایکر 11گنٹے اراضی کا تنازعہ زیردوران ہے ۔ 2012ء میں ہائیکورٹ نے بتایا جاتا ہے کہ درخواست گذاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ یہ اراضی وقف نہیں ہے ۔ وقف بورڈ اور درخواست گذار حیدرآباد Archidiocese  سوسائٹی نے علحدہ علحدہ درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل کی تھی ۔ سپریم کورٹ کے ڈیویژن بنچ نے اپنے حالیہ فیصلہ میں واضح کیا کہ ہائیکورٹ کو اراضی کے ٹائیٹل کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے ‘ لہذا ہائیکورٹ کے احکامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فریقین کو اپنے دعوے ازروئے قانون پیش کرنے کی اجازت دی ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 90ایکر قیمتی اراضی کے تحفظ کیلئے وقف بورڈ کی کاوشوں میں اہم کامیابی تصور کیا جارہا ہے ۔ چیف ایگزیکٹیو آفیسر محمد اسد اللہ نے گٹلا بیگم پیٹ اور درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اوقافی اراضیات کے تحفظ سے متعلق سپریم کورٹ میں زیردوران مقدمات میں خصوصی دلچسپی دکھائی ہے ۔ وہ وقتاً فوقتاً ان مقدمات میں وکلاء سے نہ صرف ربط میں رہے بلکہ انہیں  تمام درکار دستاویزات فراہم کئے ۔ چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی انتھک کوششوں نے آخر کار وقف بورڈ کو ایک طویل قانونی لڑائی میں کامیابی عطا کی ہے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر وقف بورڈ نے قانونی رائے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ نئے اعلامیہ کی اجرائی کو یقینی بنایا جاسکے ۔

بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کو کسی بھی فریق کیلئے چیلنج کرنا آسان نہیں اور اوقافی اراضی پر دعویداری پیش کرنے والے افراد اور اداروں کو اب وقف ٹریبونل سے رجوع ہونا پڑے گا ۔ توقع ہے کہ وقف بورڈ اس اراضی کے سلسلہ میں جلد ہی نیا گزٹ اعلامیہ جاری کردے گا ۔ وقف بورڈ کے وکلاء کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ نے وقف اراضی پر وقف بورڈ کے دعوے کو برقرار رکھا ہے اور ہائیکورٹ نے قابضین کے حق میں جو فیصلہ دیا تھا اُسے کالعدم قرار دیا گیا ۔ اسی دوران چیف ایگزیکٹیوآفیسر وقف بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر وکلاء سے مشاورت کی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وقف بورڈ ریاست کی تمام اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے سنجیدہ ہے اور اسے حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ ماہ سپریم کورٹ میں درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی اراضی سے متعلق مقدمہ کی سماعت مقرر ہے ۔ بورڈ نے اوقافی جائیداد ثابت کرنے کیلئے تمام درکار شواہد اور دستاویزات پیش کئے ہیں ‘ انہیں اُمید ہے کہ اراضی کا فیصلہ بورڈ کے حق میں آئے گا ۔ درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کے تحت منی کونڈہ میں 1654ایکر 32 گنٹے اراضی میں سے 807ایکر اراضی لینکو ہلز کے بشمول کئی خانگی کمپنیوں کو الاٹ کردی گئی ہے ۔ چیف منسٹر نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ 800ایکر کھلی اراضی وقف بورڈ کے حوالے کردی جائے گی ۔  اسی دوران وقف بورڈ کے عہدیدار مجاز سیدعمرجلیل نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو وقف بورڈ کی اہم کامیابی قرار دیا اور اُمید ظاہر کی کہ عدالتوں میں زیردوران دیگر مقدمات میں بھی کامیابی حاصل ہوگی اور اہم جائیدادوں کا تحفظ ہوگا ۔