ہم یروشلم منتقل نہیں ہورہے بلکہ ’’واپسی‘‘ کررہے ہیں
ہم نے وہی کیا جو ٹرمپ کے اعلان کے بعد ہمیں کرنا
چاہئے تھا
وزیرخارجہ سینڈرا جوویل کے پریس کانفرنس میں
دوٹوک بیانات
گوئٹے مالا سٹی ۔28 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا کی وزیرخارجہ نے آج ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ گوئٹے مالا کے سفارتخانہ کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کیلئے امریکہ نے اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ ہم نے اپنی مرضی سے سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزیرخارجہ سینڈرا جوویل نے گوئٹے مالا سٹی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر امریکہ کا کوئی دباؤ نہیں تھا اور نہ ہی انہیں کوئی دھمکی دی گئی تھی بلکہ یہ حکومت کا آزادانہ فیصلہ تھا۔ یاد رہیکہ صدر گوئٹے مالا جمی موریلز نے اتوار کے روز یہ اعلان کیاتھا کہ وہ ملک کا دارالخلافہ اسرائیل کے شہر تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے والے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپ ہوگا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنائے جانے کے اعلان کے بعد گوئٹے مالا ہی وہ واحد ملک ہے جس نے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کااعلان کیا ہے جبکہ دوسرے ممالک کی جانب سے اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ ایسے ممالک جو امریکی امداد پر پلتے ہیں، ان کے بارے میں وثوق سے کہا جارہا ہیکہ آج نہیں تو کل ان کے اعلانات بھی منظرعام پر آئیں گے جبکہ اکثریت ایسے ممالک کی ہے جو امریکہ کے اس یکطرفہ فیصلہ کو ماننے سے انکار کرچکے ہیں۔ امریکی صدر اس وقت ایک بوکھلائے ہوئے شخص نظر آرہے ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کیلئے امریکی بجٹ میں بھی زبردست کٹوتی کا اعلان کیا ہے
حالانکہ امریکہ نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرے گا بالکل اسی طرح گوئٹے مالا نے بھی فی الحال بات صرف اعلان کی حد تک محدود رکھی ہے۔ نہ تو امریکہ نے یہ ظاہر کیا ہیکہ وہ اپنا سفارتخانہ یروشلم کب منتقل کرے گا اور نہ ہی گوئٹے مالا نے۔ چونکہ یہ معاملہ انتہائی متنازعہ ہے لہٰذا اس کو بین الاقوامی رایء شماری کے سوائے حل نہیں کیا جاسکتا۔ معاملہ جب دو ممالک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ کا ہے تو یروشلم کس ملک کا دارالحکومت بنے یہ فیصلہ بھی دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کے ذریعہ ہونا چاہئے۔ گذشتہ ہفتہ کی ہی بات ہے جب اقوام متحدہ کے ارکان ممالک جن کی تعداد 128 بتائی گئی ہے، نے ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کے دارالخلافہ بنائے جانے کے فیصلہ کو یکسر مسترد کردیا تھا۔ صرف 9 ممالک ہی ایسے تھے جنہوں نے امریکی فیصلہ کی تائید کی تھی اور یہ وہ ممالک ہیں جو امریکی امداد پر پلتے ہیں اور امریکہ کی جانب سے آنکھیں دکھانے پر تھرتھر کانپنے لگتے ہیں ان میں اسرائیل، گوئٹے مالا، ہنڈوراس، دی مارشل آئی لینڈس، مائیکروینشیا، نورو، پلاؤ اور ٹوگو شامل ہیں۔ مابقی ممالک نے ووٹنگ سے غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی۔
ٹرمپ نے کسی زخمی شیر کی طرح دہاڑتے ہوئے کہا کہ جن ممالک نے امریکہ کے خلاف ووٹ دیا ہے ان کی مالی امداد بند کردی جائے گی۔ اس موقع پر گوئٹے مالا کی وزیرخارجہ سینڈرا جوویل نے پریس کانفرنس کے دوران ناراضگی کا لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ ہم پر کسی بھی ملک کا دباؤ نہیں ہے کیونکہ ہم اسرائیل کے دوست اور اس کے تاریخی حلیف ہیں۔ ہم نے نہ تو اسرائیل سے کچھ پوچھا ہے اور نہ ہی امریکہ سے۔ ہم نے وہی کیا جو ٹرمپ کے اعلان کے بعد ہمیں کرنا چاہئے تھا۔ ان کا کہنا ہیکہ گوئٹے مالا کی حکومت یروشلم منتقل نہیں ہورہی ہے بلکہ ’’واپسی‘‘ کررہی ہے کیونکہ اس کا سفارتخانہ 1978ء تک یروشلم میں ہی تھا اور اس کے بعد ہی سفارتخانہ تل ابیب منتقل کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ متعدد لاطینی امریکی ممالک کے سفارتخانے بھی 1980ء میں اس وقت تک یروشلم میں ہی موجود تھے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے اسرائیل کے ایک بیان کی یہ کہتے ہوئے شدید مذمت کی تھی اسرائیل یروشلم کے موقف میں تبدیلی کی کوشش کررہا ہے جو قیام امن کی راہ میں زبردست رکاوٹ کی وجہ بن سکتا ہے۔ سینڈرا جوویل کے اس بیان پر فلسطینی وزارت خارجہ کی جانب سے زبردست تنقید کی گئی اور کہا گیا ہے کہ گوئٹے مالا کی وزیرخارجہ جس انداز میں بیان دے رہی ہیں، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ گوئٹے مالا کا امریکہ پر کس قدر انحصار ہے۔ یہ دراصل ٹرمپ سے قربت یا ٹرمپ کی سحرانگیز شخصیت کا اثر نہیں بلکہ امریکی امداد بول رہی ہے جو کروڑہا ڈالرس کے روپ میں گوئٹے مالا کو دی جاتی ہے جس سے اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔