کانگریس کو سورت اور احمد آباد کے شہری علاقوں میں بھی بہتر کامیابی کی امید ۔ لمحہ آخر کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے کی حکمت عملی پر غور
حیدرآباد۔5ڈسمبر(سیاست نیوز) گجرات انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی دیہی علاقو ں میں گرفت کھوتی جا رہی ہے اور دیہی رائے دہندے بی جے پی کو مسترد کرنے لگے ہیں اس کے برعکس شہری علاقو ںکو بی جے پی کا مضبوط گڑھ تصور کیا جانے لگا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ شہری علاقوں کے عوام پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں لیکن دیہی رائے دہندوں کی بی جے پی سے دوری کا کانگریس کو بھر پور فائدہ ہوسکتا ہے۔ 2002 سے اب تک کے انتخابات میں گجرات کے دیہی علاقو ںمیں بی جے پی کو بتدریج نشستوں میں گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں پارٹی کو اب فکر لاحق ہو تی جا رہی ہے۔ گجرات کی دیہی علاقوں کی 98 نشستیں پارٹی کیلئے چیالنج بنتی جا رہی ہیں اور اس چیالنج سے نمٹنے پارٹی حکمت عملی پٹیل تحفظات تحریک کے سبب ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ 182 نشستوں پر مشتمل گجرات اسمبلی میں 98 دیہی نشستیں ہیں جبکہ 84 نشستیں شہری علاقوں کی ہیں اور 98 دیہی نشستوں کے سابق ریکارڈس کا جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ 2002میں بی جے پی نے اس وقت کی 115 دیہی نشستوں میں 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن 2007 اسمبلی انتخابات میں 115 نشستوں میں 64 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور 2012 انتخابات میں دیہی نشستوں کی تعداد 98 ہوگئی لیکن ان میں پارٹی کو صرف 50 پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ اسی طرح 2002 کے بعد سے گجرات کے دیہی علاقوں میں کانگریس رائے دہی میں اپنے حصہ کو بہتر بناتی جا رہی ہے۔ 2002انتخابات میں گجرات دیہی علاقو ںمیں کانگریس نے 32فیصد ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ اس میں 2007کے دوران 8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور کانگریس کا ووٹ شئیر 40فیصد تک پہنچ گیا۔
اسی طرح 2012 میں کانگریس کو 44 فیصد دیہی ووٹ حاصل ہوئے اور اس مرتبہ کانگریس مزید دیہی ووٹ کے حصول کے سلسلہ میں پر امید ہے کیونکہ پارٹی کو احساس ہوچلا ہے کہ گجرات کے عوام میں پٹیل تحریک اور کرنسی تنسیخ کا مسئلہ شدت اختیار کئے ہوئے ہے وہیں جی ایس ٹی کے سلسلہ میں بھی عوام میں بی جے پی کے خلاف ناراضگی کی لہر ہے۔ کانگریس شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اورکہا جا رہاہے کہ کانگریس کو دیہی علاقو ںمیں بھاری کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور احمدآباد اور سورت جیسے تجارتی اضلاع میں بھی کانگریس کو ووٹ میں شئیر کے علاوہ نشستوںپر کامیابی کی پیش قیاسی کی جارہی ہے کیونکہ ان تجارتی شہروں میں کرنسی تنسیخ اور جی ایس ٹی کے سبب جو صورتحال پیداہوئی ہے اس سے نمٹنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ بی جے پی اعلی قیادت گجرات انتخابات میں کامیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے دیہی عوام کے درمیان پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کی اس کوشش کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ پارٹی ذمہ داروں کی جانب سے جو حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے وہ لمحہ آخر میں رائے دہندوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے والی ثابت ہوسکتی ہے ۔ کانگریس اعلی کمان بی جے پی کی اس حکمت عملی کا مقابلہ کرنے چوکسی اختیار کئے ہوئے ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انتخابات سے عین قبل اگر دولت کے زور پر رائے دہندوں کو راغب کروانے کی کوشش کی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن اور انتخابی عمل کو صاف و شفاف بنائے رکھنے سرگرم اداروں اور حکام کو غیر جانبدار بنائے رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ گجرات اسمبلی انتخابات میں کامیابی کو کانگریس ملک میں عوام کی کامیابی سے تعبیر کرنے اور کسانوں اور تاجرین کی کامیابی قرار دیتے ہوئے عوام کے درمیان ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی عوام کے بنیادی مسائل کا تذکرہ کئے بغیر گجرات میں نریندر مودی اور امیت شاہ کے نام پر ووٹ مانگنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس اب بدعنوانیوں کا مسئلہ بھی نہیں رہا جس کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکے۔ دیہی علاقوں میں کسانوں میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ناراضگی ہے کیونکہ پارٹی برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود گجرات کے کسانوں کو ان کی پیداوار کی اقل ترین قیمت ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کسان بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ماحول سازی کر رہے ہیں اور 2017اسمبلی انتخابات میں کسانوں کی جانب سے بھی مخالف بھارتیہ جنتا پارٹی ووٹ دیئے جانے کا امکان ہے اور اس کا راست فائدہ کانگریس کو حاصل ہونے کی قوی توقع ہے ۔ گجرات اسمبلی انتخابات کیلئے اب کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں ان دنوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کو دیہی علاقوں کے عوام کے مسائل پر بات کرنے کا موقع حاصل ہونے کی بھی کوئی امید نہیں ہے ۔