گاؤ رکھشکوں کے مظالم سے مسلمان ۔ دلت متحد

اُتر پردیش میں مایاوتی کی مقبولیت سے بی جے پی کا ووٹ بینک منتشر
نئی دہلی۔/23اگسٹ، ( سیاست ڈاٹ کام ) اگرچیکہ ایودھیا رام مندر مسئلہ نے اتر پردیش میں ذات پات کے امتیازات کے بغیر تمام ہندوؤں کو متحد کردیا تھا لیکن گاؤ رکھشا کا تنازعہ بی جے پی کے خلاف دلت اور مسلم ووٹرس کو متحد کردیا ہے۔ اس اتحادسے بہوجن سماج پارٹی کے حق میں سیاسی حالات سازگار ہوگئے ہیں اور پارٹی کو ایک نئی طاقت اور توانائی حاصل ہورہی ہے گوکہ زعفرانی پارٹی درج فہرست ذاتوں کے رائے دہندگان کو مایاوتی سے دور کرنے کی ممکنہ کوشش میں ہے۔ چند ماہ قبل ایسا معلوم ہورہا تھا کہ مایاوتی کی مقبولیت گھٹ رہی ہے ۔ بی جے پی کا یہ دعویٰ تھا کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی اصل حریف جماعت ہوگی لیکن اتر پردیش بی جے پی کے نائب صدر دیاشنکر سنگھ کے غیر پارلیمانی تبصرہ، گجرات کے ٹاؤن اونا میں دلتوں پر گاؤ رکھشکوں کے حملے، اترپردیش میں دلتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم نے مایاوتی کے حامیوں کو سڑکوں پر نکلنے مجبور کردیا جس کے باعث آئندہ اسمبلی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔ اترپردیش میں جاٹوا برادری کے 17فیصد ووٹ ہیں جوکہ مایاوتی کے موئید ہیں اگر وہ ریاست میں 17فیصد مسلم ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو حکومت تشکیل دینے کی اہل ہوجائیں گی۔ سماجوادی پارٹی نے 2012 کے اسمبلی انتخابات صرف 29فیصد ووٹ حاصل کرکے 403 میں سے 2234 نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی

اور مایاوتی بھی 2007 میں تقریباً 29فیصد ووٹ حاصل کرکے برسراقتدار آئی تھیں۔ اگر کانگریس چار رُخی مقابلے میں آگئی تو کامیابی کا تناسب گھٹ سکتا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کے آغوش میں دلتوں اور مسلمانوں کو لانے کیلئے مایاوتی کی حکمت عملی اسوقت ظاہر ہوگئی جب آگرہ میں حالیہ ایک ریالی میں انہوں نے غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔ اس علاقہ میں مسلمانوں اور دلتوں کی قابل لحاظ آبادی رہتی ہے۔ انہوں نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا کہ گاؤ رکھشا، دہشت گردی اور جہاد کے نام پر مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ 4 ممتاز مسلم قائدین نے بی ایس پی میں شمولیت اختیار کی تھی جس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ مسلم ووٹ کس پارٹی کے حق میں جائیں گے۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کی سیاست میں ’ تحفظ گاؤ ‘ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بی جے پی نے سابق انتخابات میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا حتیٰ کہ بھارتیہ جن سنگھ ( جس کا نام بدل کر بی جے پی کردیا گیا ) نے بھی 1966 میں تحفظ گاؤ تحریک چلاتے ہوئے متحدہ اتر پردیش کے انتخابات میں 425 میں سے 98 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس تحریک کے دوران پارلیمنٹ کے روبرو پولیس فائرنگ میں 10 احتجاجی ہلاک ہوگئے لیکن اسوقت بہوجن سماج پارٹی کا وجود نہیں تھا اور مسلم ووٹ، کانگریس کی جھولی میں تھے۔ سال 2007 کے اسمبلی انتخابات میں اتر پردیش کے چیف الیکٹورل آفیسر نے راجناتھ سنگھ اور اسوقت کے اپوزیشن لیڈر لال جی ٹنڈن کے خلاف ایف آئی آر درج کروایا تھا جن پر ذبیحہ گاؤ اور گجرات فسادات پر سی ڈیز تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں راجناتھ سنگھ نے وضاحت کی تھی کہ پارٹی کی یہ کوشش ہے کہ ملک گیر سطح پر ذبیحہ گاؤ کے خلاف پابندی لگادی جائے اس کے باوجود یہ حربہ کارگر ثابت نہیں ہوا بالآخر مایاوتی شاندار اکثریت سے کامیاب ہوگئیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ دہرائی جائے گی اور آئندہ اسمبلی انتخابات میں ’ گائے‘ پر مقابلہ آرائی ہوگی کیونکہ بی جے پی گاؤ رکھشکوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں ہے تو بی ایس پی مسلمانوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتی ہے۔