الور۔ایک ضلع جہاں پر گائے کے نام پر بے شمار تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں‘ بی جے پی 2013میںیہاں کی گیارہ اسمبلی سیٹوں میں سے نو پر جیت حاصل کی تھی مگر اس مرتبہ دو میں ہی سمٹ کر رہ گئی۔بی جے پی نے الور ( اربن ) اور الور ضلع کے مونداور سیٹ پر دوبارہ قبضہ کیا۔
جبکہ تیجارہ‘ کشن گڑھباس‘ بہرور‘ بنسور‘ تھانگازی‘ الور( رورل)‘ کاتھومر‘ اور راج گڑھ ۔ لکشمن گڑھ کی سیٹ پر بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہریانہ کی سرحد پر الور ضلع ہے جس کو بڑی تعداد میں ڈائیری کسانوں کا گھر مانا جاتا ہے۔
ایک کسان نے کہاکہ 2017میں میوات کے ساکن پیہلوخان اور جاریہ سال کی ابتدائی میں راکھبیر خان کے گاؤ رکشہ کے نام پر ہوئے قتل کے بعدگائیوں کی ٹرانسپورٹ روک دیا گیا ہے جس کی وجہہ سے لوگوں کا گذارا مشکل ہوگیا
۔سڑکوں پر گھومنے والی آوارہ گائے کا کھیتوں میں چلے جانے بھی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ رام گڑھ کا ایک کسان راہول مینا نے کہاکہ’’ رات کے اوقات میں کسانوں اپنے کھیتوں کے باہر ڈانڈا لے کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے ہیں تاکہ سڑکوں پر گھومنے والی گائیوں کو کھیتوں میں جانے سے روک سکیں۔ تاہم بی جے پی نے اس مسلئے پر کبھی توجہہ نہیں دی۔ٹھیک اسی طرح ذات پات کی سیاست نے بھی اہم رول ادا کیا ہے ۔
تیجارہ میں بی ایس پی کے سندیپ کمار بی جے پی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑا کرتے ہوئے یادو اور دلت ووٹوں کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہیں کشن گڑھ باس میں بی ایس پی کے دیپ چند باس نے گجر او رجاٹ سماج کے ووٹ متحد کرتے ہوئے بی جے پی کے رام راہت سنگھ کو شکست دی ۔
میو مسلم اکثریت والے علاقے میوات میں ایس سی ایس ٹی اور مسلم ووٹوں کے اتحاد نے ایک نیا سیاسی رحجان تیار کیا ۔ بھرت پور سے جہاں پر 2013میں بی جے پی نے چھ میں سے پانچ سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی اس مرتبہ صفر تک پہنچ گئی۔
ناد بھائی او رنگر میں بی ایس پی نے ایس سی ‘ ایس ٹی کے ووٹ کاٹ دئے۔ نگر میں بی ایس پی کے امیدوار واجب علی نے مسلم ‘ جاٹ او ردلت ووٹ حاصل کئے جس کی وجہہ سے بی جے پی تیسرے نمبر پر پہنچ گئی