عام طور پرایم ایم اکبر کے متعلق یہ کہاجاتا ہے کہ و ہ کیرالا کے ذاکر نائیک ہیں‘ وہ پیس انٹرنیشنل اسکولس کے ایم ڈی ہیں جہاں پر سی بی ایس سی نصاب کے تحت بارہوں جماعت تک تعلیم کا انتظا ہے۔
کیرالا میں دس اور منگلور و منیکو میں ایک ایک اسکول ہے۔
دوہفتہ قبل ایرناکولم میں ایک ضلع سیشن کورٹ نے ایم ایم اکبر کی ضمانت منظوری کی ‘ جوکہ ایک مبلغ ہیں اور اسکولس بھی چلاتے ہیں۔حیدرآباد سے انہیں24فبروری کو اس لئے گرفتار کیاگیاتھا کہ ان پر پرائمری نصاب کی کتابوں کے ذریعہ ان پر نفرت پھیلانے کا الزام تھا۔
ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے محسوس کیا کہ’’ عدالت کو دیگر گروپ یا طبقے کے لوگوں کے جذبات مجروح کرنے والے مواد عدالت کو کہیں بھی نظر نہیں آیا جس کے وجہہ سے اس کیس کے مبینہ ملزم کو قصوار ٹھرایاجاسکے‘‘۔عام طور پرایم ایم اکبر کے متعلق یہ کہاجاتا ہے کہ و ہ کیرالا کے ذاکر نائیک ہیں‘ وہ پیس انٹرنیشنل اسکولس کے ایم ڈی ہیں جہاں پر سی بی ایس سی نصاب کے تحت بارہوں جماعت تک تعلیم کا انتظا ہے۔
کیرالا میں دس اور منگلور و منیکو میں ایک ایک اسکول ہے۔نصابی تنازع سے قبل پہلے بار سال2016میں ان کے اسکولس اس وقت سرخیو ں میں ائے جب ان کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی مبینہ طور پر داعش میں شمولیت کی بات سامنے ائی تھی۔ ان میں سے لاپتہ ہونے کی اطلاع عام ہونے قابل ایک عبدالرشید اور اس کی بیوی سونیا جن کا اصلی نام عائشہ ہے جو کسر گوڈ میں پیس اسکول کے ساتھ کام کرتے تھے۔
اس کے علاوہ عدالرشید کی دوسری بیوی یاسیم احمدجس کو دہلی سے ائیرپورٹ سے اس وقت گرفتار کیاگیا جب وہ مبینہ طور پر رشید سے ملاقات کے لئے افغانستان جانے کی تیاری کررہی تھی وہ بھی ملاپورم کے کوٹا کل پیس اسکول میں کام کیاکرتے تھی
۔مذکورہ 52سالہ اکبر جس کا کوزیکوٹی میں نیچی آف ٹرتھ نام کی ایک تنظیم بھی ہے جو مختلف میڈیا ذرائع سے اسلام کی تشہیر کاکام کرتا ہے ‘ نے 2006میں پیس اسکولس کی پیس ایجوکیشنل فاونڈیشن کے تحت قیام عمل میں لایا۔مسلم تاجرین نے ہر سنٹر میں سرمایہ کاری کی ہے‘ جبکہ اکبر نصابی سرگرمیاں انجام دینے کاکام کرتے ہیں۔
مذکورہ اسکولس میں زیرتعلیم6500میں نوے فیصد مسلمان ہیں‘ ہر اسکول میں دینی اور عام تعلیم ایک چھت کے نیچے دی جاتی ہے۔پیس فاونڈیشن کے تمام اسکولوں میں ایک ہی نوعیت کے تعلیمی نظام ہے‘ مگر ایرناکولم کا یہ پہلا اسکول ہے جس کے نصاب کے تنازع میں پولیس کیس کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ علاوہ ازیں کولم او رتریچور کے اسکولوں کے خلاف بھی اس قسم کی شکایت کی گئی ہے جس پر عدالت نے بعد میں روک لگادی۔
جماعت کے دوم کی مذکورہ نصابی کتاب کے ایک حصہ جس میں شہادت اسلامی تعلیم جس کے تحت خدائی واحد کی کبریائی کو قبول کرنا ہے اور محمد رسول ﷺ کو آخری نبی ماننا ہے پر تنازع پیدا کیاگیاہے۔کتاب کے اس حصہ میں ٹیچر اور ایک مسلم طالب علم کے درمیان میں سوال او رجواب پیش کئے گئے ہیں’’ سمجھو کہ تمہاری دوست ادم/سوسین نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیاہے تو تم اس کو کیا مشورہ دو گے؟‘‘جس کے پیش نظر مختلف جوابات اس حصہ میں شامل کئے گئے ہیں جو پولیس میں شکایت کاسبب بنا۔مذکورہ سیکشن کے حوالے سے ریاستی محکمہ تعلیم نے 17ستمبر2017کو ایک مقامی پولیس میں ایک شکایت درج کرائی ۔
ایک ماہ بعد پولیس نے مقدمہ درج کیا ۔ ڈسمبر2016کو کوچی پولیس ممبئی نژاد کتاب نشر کرنے والے بروج ریلائزیشن کے تین لوگوں کو گرفتار کیا۔بعدازاں انہیں ضمانت پر رہا کردیاگیا۔اکبر نے کہاکہ ’’ مذکورہ کتاب کا وہ حصہ صرف مسلم طلباء کے لئے تیار کیاگیاہے‘‘۔انہوں نے کہاکہ ’’ مدرسہ ایجوکیشن کے طور پر اس کو متعارف کروایاگیا ہے‘ جو اسکول میں فراہم کیاجارہا ہے۔
ہم نے صرف چارسال تک اس کی کتاب کے ذریعہ درس دیا ‘ 2016کے بعد جب ہمیں نے فیصلہ لیاہے کہ درجہ دوم کی جماعت کے طلبہ کے لئے یہ غیرموزوہے تو اسکوروک دیاگیا‘‘۔ان کا دعوی ہے کہ ’’ جب شکایت درج کرائی گئی تھی اسوقت تک ہم نے کتاب کو نصاب سے ہٹادیاتھا‘ جوتین حصوں پر مشتمل تھی۔ تاہم پولیس نے اسکول سے کتاب ضبط کی ہے اور ایک مقدمہ درج کیا‘‘۔
ایرناکولم کا مذکورہ اسکول اس وقت پولیس کی راڈر میںآیا جب میڈیا میں میرین جاکیب( مریم) جوکہ گمشدہ لڑکی تھی اس اسکول میں درس دے رہی ہے۔پیس ایرناکولم اسکول کے ایک پروموٹر نور محمد شاہ نے کہاکہ مریم نے ان کے اسکول میں کبھی درس نہیں دیا۔انہوں نے بتایا کہ ’’ مریم اسکول ائی اور انٹرویودیا اس کے بعد تمثیلی مظاہرہ کے لئے کلاس روم سے خطاب بھی کیا۔ اس کا انتخاب نہیں ہوا تھا۔
اس کی گمشدگی پر ہمیں کیوں موردالزام ٹھرایاجارہا ہے؟‘‘۔اکبر نے دعوی پیش کیا کہ 2009سے ملک کے چارسو اسکولوں میں اسی طرح کی نصابی کتاب کے ذریعہ تعلیم دی جارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ یہاں تک کے کیرالا کے دواسکول جہاں پر مسلم انتظامیہ ہے ہماری اس کتاب کے ذریعہ تعلیم دی رہے ہیں۔ پچھلے سال جنوری میں محکمہ تعلیم نے اس اسکول کوبند کرنے کے احکامات جاری کئے تھے ‘ مگر کیرالا ہائی کورٹ نے اس پر روک لگادی۔
اکبر نے کہاکہ ان کے اسکول میں مسلم طلباء کی مذہبی تعلیم کے لئے نیا نصاب تیار کیاجارہا ہے۔ اکبر ملا پورم میں اسکول ٹیچر کاکام کرتے تھے۔ وہ فزیکس کی تعلیم دیتے تھے۔ اپنے دورتعلیم میں اکبر مجاہد اسٹوڈنٹ مومنٹ سے وہ جڑے رہے۔ اسکے علاوہ وہ ایک مقرر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں‘ اکبر نے کبھی بھی مسلم اسکالر کا باضابطہ درس نہیں لیا۔
حالیہ دنوں میں مذہبی مباحثے میں اکبر نے مسلمانو ں کی نمائندگی کرتے ہوئے ہندو او رعیسائیوں کی مذہبی کتابوں کا حوالہ دیاتھا۔انہو ں نے کہاکہ ’’ اسکول ٹیچر کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران میری دلچسپی مذہبی تحریروں میں تھی۔ بیس سال قبل میں ٹیچرکی ملازمت چھوڑ کر چوبیس گھنٹے تبلیغ کے کام میں جٹ گیا۔ اب تک میرے اوپر اپنی تقاریر کے ذریعہ مذہبی نفرت پھیلانے ایک بھی مقدمہ درج نہیں کیاگیا ‘‘