کوچی۔قومی سطح پر متنازعہ بنے کیرالا کے مبینہ’’لوجہاد‘‘ کیس میں معزز عدالت کے فیصلے کے بعد ‘ حادیہ کے شوہر شیفان جہاں سے ایک روز قبل این ائی اے کے چار گھنٹوں تک پوچھ تاچھ کی ہے۔شیفان جہاں کو پیر کی شام کو این ائی اے کے کوچی ہیڈ کوارٹر میں طلب کیاگیا اور ان کے ائی ایس ائی ایس سے مبینہ تعلقات کے متعلق چارگھنٹوں تک پوچھ تاچھ کی گئی۔
این ائی اے کی جاری تحقیقات کے مطابق جہاں پر ائی ایس ائی ایس ممبرس منسید اور پی سفاوان سے تعلقات کا الزام ہے‘ جوکہ عمر الہندی کیس میں کے ملزم ہیں جنھوں نے فیس بک کے ذڑیعہ پاپلر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف ائی)جوکہ ایس ڈی پی ائی کے سرگرمیوں کو انجام دیتا سے کروایاتھا۔مذکورہ عمر الہندی کیس ائی ایس سے متاثر گروپ کی کارستانی ہے جس کا مقصد عدالیہ کو نشانہ بنانا ہے۔
ساوتھ کے سیاسی لیڈرس‘ پولیس اور جہاں پر ان دنوں سے مبینہ طورپر تعلقات کا الزام ہے جو اکٹوبر میں گرفتار ہوئے جنھوں نے شیفان کی ہادیہ سے شادی بھی کرائی تھی۔
اس تحقیقات کے دوران اب اس بات کاانکشاف ہوا ہے کہ شیفان گرفتار دونوں ملزمین سے اپنے ایک مشترکہ دوست منیر جو سائین با کے نام سے جانا جاتا کے ذریعہ رابطہ میں تھا جس کو ہدایہ کا سرپرست بھی بنایاگیاتھا۔
ٹائمز ناؤ سے بات کرتے ہوئے ہادیہ کے والد نے ہادیہ کی تبدیلی مذہب کے متعلق دعوی کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ جان بوجھ کر کیاگیا کام ہے۔
اس دعوے کے ساتھ وہ عدالت سے بھی رجو ع ہوئے تھے اور مذکورہ شادی کو لوجہاد قراردیاتھا۔انہوں نے کہاکہ ’’ ایک بار تحقیقات شروع ہوجانے دیجئے ‘ میں فی الحا ل کچھ کہنے کے موقف میں نہیں ہوں‘ مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ ایک شریف آدمی نہیں ہے۔
اگر وہ شریف ہوتا تو این ائی اے اس پر تحقیقات کیوں کرتی؟میں بھی اس کے دہشت گردوں سے رابطے سے واقف ہوں ‘ اور مجھے یقین ہے اس تحقیقات سے کچھ سامنے نکل کر ائے گا‘‘
ہادیہ کے والد اشوکن کا الزام ہے کہ ان کا داماش شیفان جہاں ایک’’ شدت پسند شخص‘‘ ہے ‘ جس کے تارائی ایس ائی ایس میں بھرتی کرنے والوں سے ملے جڑے ہوئے ہیں۔
کیرالا ہائی کورٹ کی جانب سے 29مئی کولوجہاد قراردیتے ہوئے دونوں کی شادی کو نامنظور کئے جانے کے بعد ہادیہ چھ ماہ تک اپنے والدین کی تحویل میں رہی ‘ اب وہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد اپنی تعلیم کی تکمیل کرنے کے لئے ٹاملناڈو کے سلیم میں واقعہ ہومیوپتھی کالج کو منتقل کردی گئی ہے۔
کیرالا ہائی کورٹ کے احکامات پر شیفان نے سپریم کورٹ کا رخ کیاتھا جہاں پر جنوری 2018تک اس کیس کی سنوائی جاری رہنے کی توقع کی جارہی ہے۔