کانگریس کواقتدار حاصل کرنے کے لئے موافق مسلم ہونا ضروری نہیں ہے۔کمیونٹی کے تئیں اس کی پالیسیاں کے لئے جمہوری اصولوں پر رہنمائی کے ضرورت ہے جو ائین کے مطابق فراہم کئے گئے ہیں
مختلف سیاسی جماعتو ں کی جانب سے 2019کے جنرل الیکشن کے لئے مختلف سیاسی پارٹیوں کی بھاگ دوڑ کے ہم گواہ ہیں۔ان میں سے ایک پیمانہ حالیہ دنوں میں راہول گاندھی کی ممتاز مسلم شخصیتوں سے ایک ملاقات ہے۔
کانگریس کو ضرورت ہے کہ وہ سیاست کا احیاء عمل میں لائے وہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے مگر اپنی شبہہ میں سدھار کے لئے جو ائینی اصولوں کی پاسدار ہو جو کثیریت‘ سکیولرزم او رسماجی انصاف پر مبنی ہے۔
ایسا کرتے ہوئے کانگریس نے تمام ہندوستانیوں کویاد دلایاحقیقی انڈین نیشنل کانگریس کے سنجیدہ انصاف‘ مساوات او رجمہوریت کے اصول یہ ہیں۔ اگر وہ مسلمانوں کے حقیقی حصہ داری کوکارگرد بنانے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اور بہت کام کرناہوگا۔
بی جے پی کی تنقیدوں پر کانگریس یہ وضاحت کے ساتھ اپنا ردعمل پیش کررہی ہے کہ کانگریس موافق مسلم پارٹی نہیں ہے۔ سیاسی نقطہ نظر کے برعکس مسلمان خود اسی طرح کی دھوکے میں نہیں ہیں۔
یہ مسلم ووٹرس کی بڑھتی رغبت کا نتیجہ ہے جو علاقائی پارٹیوں جیسے ایس پی‘ بی ایس پی‘ ٹی ایم سی ‘ آر جے ڈی او ردیگر مختلف ریاستوں میں پیش آیاہے۔یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ہندوستانی مسلمان کانگریس کے دور حکومت میں مسلسل غریب اور سیاسی اور سماجی طور پر حاشتہ پر پہنچ گئے ہیں۔
سال2014میں بی جے پی اقتدار میںآنے تک وہ پہلے سے خراب حالت میں تھے۔
ہندوتوا کی سونچ نے اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی ہے۔مردہ شماری کے اعداد وشمار بتاتے ہیں آزاد ی کے بعد سے مسلمانوں مسلسل پسماندہ کے نشان پر نیچے جاتے رہے ہیں۔
حالیہ وقت میں سچر کمیٹی( یوپی اے حکومت 2005میں تشکیل دی تھی) نے پتہ لگایا ہے کہ مسلمان غربت کی زندگی گذار رہے ہیں‘ ان کے پاس تعلیم کی کمی ہے ‘ کوئی ڈھنگ کاکام نہیں ہے ‘ کوئی سرکاری سہولتیں ان تک نہیں پہنچ رہی ہیں اور صحت عامہ کی اسکیم سے بھی وہ محروم ہیں۔
کمیٹی کی رپورٹ میںیہ بات سامنے ائی ہے کہ سومیں سے محض چار مسلمان گریجویٹ ہیں اور صرف تیرہ فیصد مسلمان تنخواہ یافتہ ملازمت کرتے ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ فرقہ وارنہ فسادات کے خوف نے ان کے اندر احساس کمتری پیدا کی ہے۔
سال2004میں مرکز میں حکومت کی تشکیل کے فوری بعدکانگریس نے مسلمانوں کی زمینی حقیقت کاپتہ لگانے کے لئے سچر کمیٹی کی تشکیل میں کوئی پس وپیش نہیں کیا۔
مگر مسلمانوں کی حالت میں سدھار کے لئے جو سفارشات عمل میں لائے گئے تھے اس کو روبعمل لانے میں کوئی سنجیدگی نہیں دیکھائی ہے۔بے شمار رپورٹ میںیہ بات سامنے ائی ہے کہ یوپی اے کے10سال کے دور حکومت میں مسلمانوں کی تعلیمی‘ معاشی ‘ صحت او رہاوزنگ پروگرام کو کہیں پر بھی شامل نہیں کیاگیا ہے۔
یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ گوپال سنگھ کمیٹی جس کو 1983میں اندرا گاندھی کے تشکیل دیاتھا سچر کمیٹی کی طرح ہی مذکورہ کمیڈی نے بھی مسلمانوں کے مسائل کا انکشاف کیاتھا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ کانگریس کے کچھ کاروائی نے مسلمانوں سے نفرت کے جنم دیا ہے‘ جس کی وجہہ سے مسلمان سماجی او رمذہبی طبقات میں پسماندگی کی شکار ہوئے ۔ اس کے علاوہ فرقہ فسادات بھی اس بات کی گواہی دیں گے۔
بڑے پیمانے مسلمان کو فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ کاٹا او رجلایاگیا 1980اور1990کے دہے میں علی گڑھ‘ مراد آباد ‘ میرٹھ‘ بھاگلپور‘نیلایا‘ احمدآباد‘ بھیونڈی‘ سورت‘ ممبئی فہرست طویل ہے۔کئی کمیشنوں کی رپورٹس اس کی بات کی عینی شاہد ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو بڑی پیمانے پر جان ومال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
جبکہ زیادہ تر واقعات میں کسی بھی طرح کا قانونی انصاف مسلمانو ں کو نہیں ملا۔دہشت گرد کے خلاف جنگ9/11کے پیش نظر بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گردی سے مربوط کیاجانے لگا۔
جب یہ لعنت ہندوستانی پہنچی تو حیدرآباد‘ احمد آباد‘ مالیگاؤں‘ اجمیر میں بم دھماکوں کے پیش نظر کئی مسلمانوں دہشت گردی کے فرضی الزامات کے تحت گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔
ان میں سے زیادہ تر کومختلف عدالتوں نے بری کردیا اور سپریم کورٹ نے تو انہیں بے قصور قراردیا۔ یہ تمام گرفتاریاں کانگریس کی نگرانی میں ہوئی تھیں۔
اسکو بڑی مشکل سے ہمدردی( دکھاوا) کہا جاسکتا ہے۔ایک طرف کانگریس نے حکومت کی غریبوں کے لئے قائم کی گئی مختلف اسکیمات میں کانگریس کی حصہ داری پر خصوصی توجہہ دی ۔ دوسری طرف 1986کے شاہ بانو کیس میں بی جے پی کے لئے فائدہ پہنچانے والے حالات پیدا کردئے۔
کانگریس کایہ کلاسیکی رویہ اب بھی تین طلاق کے مسلئے کی صورت میں برقرار ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کانگریس کااس پر کیا موقف ہے۔قدامت پسند مسلمانوں کی طرح وہ کمیونٹی کی توقع کے متعلق دیوار پر لکھی تحریک کا مشاہدہ کرنے میں ناکام رہی۔
جنسی مساوات میں کانگریس نے پوری طرح مسلم خواتین کی تحریک کو درکنار کردیا۔کئی مسلمانوں کایہ ماننا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی اس حالت زار کی ذمہ دار ہے۔ کانگریس اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین حاصل کرنے کے لئے مسلم نواز نہیں ہونا چاہئے گی۔
او رنہ ہی وہ بی جے پی کی بی ٹیم بن سکتی ہے۔ دستورکے مطابق دلت اورمسلمانوں کے ساتھ سماجی انصاف کے دعوؤں کے ذریعہ اپنی پارٹی کی شبہہ میں سدھار کی کوشش یہ صرف یہ ایک حصہ ہے۔