راجستھان کے ضمنی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کو کیا ملک کی سیاست میں تبدیلی مان لیاجائے؟
سال 2019کے آغاز میں ہونے والے عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں پر عوام کی نظریں مرکوز ہیں ۔ کچھ سیاسی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اب مودی حکومت اور بی جے پی الیکشن کے موڈ میںآگئی ہے ‘ لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ 26مئی سال2014سے لیکر اب تک محسوس ہی نہیں ہوا کہ بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی الیکشن موڈ میں نہیں ہیں۔
وہ خود بھی شروع سے الیکشن موڈ میں تھے اور اپنی پوری کابینہ کو اسی موڈ میں رکھا۔ اب یہ سوال مت کرلینا کہ پھر کام کب کیا؟ کیونلہ س کا جواب آپ کے پاس ہے او راگر نہیں ہے تو گوگل سے پوچھ لو۔ اس کے ساتھ ہی ایک او ربات کہنے کی اجازت چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ جس طرح پورے چار سال بی جے پی یہ نہیں سمجھ سکی کہ وہ اقتدار میں ہے ‘ وہ ایک حکمراں جماعت ہے‘ اس کے اوپر اب پارٹی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ذمہ داری ہے اسی طرح پورے چار سال کانگریس یہ نہیں سمجھ سکی کہ اب وہ اقتدار میں نہیں ہے ‘ اس پر اپوزیشن کی ذمہ داری ہے ۔
میں جو بات کہہ رہاوں اگر اس پر ذرا غور کریں گے توتصوئیر پوری طرح صاف ہو جائے گی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی اور نریندر مودی پہلے سے ہی الیکشن موڈ میں ہیں لیکن کانگریس کے سلسلہ میں شک ہے کہ وہ اب بھی الیکشن موڈ میں ہے یا نہیں تاہم کانگریس کے صدر راہول گاندھی کی جانب سے کچھ سرگرمیاں سامنے آرہی ہیں جس سے لگتا ہے کہ شاید آہستہ آہستہ کانگریس بھی سرگرم ہورہی ہے ۔ اس مضمون میں عام انتخابات کو سامنے رکھ کردو چیزوں پر بطور خاص تبصرہ کرنا چاہوں گا۔ پہلی چیز ہے کہ مودی حکومت کی طرف سے پیش کیاگیا آخری کلی عام بجٹ اور دوسری چیز ہے راجستھان میں بی جے پی کو زبردست شکست اور کانگریس کی زبردست واپسی۔
پہلے ہم بات کرتے ہیں مودی حکومت کے بجٹ پر ‘ کیونکہ اس بجٹ کو لیکر کافی شور تھا۔ میڈیا میں طرح طرح کی باتیں ہورہی تھیں کہ اس مرتبہ کا بجٹ الیکشن والا بجٹ ہوگا‘ ہر کوئی مالا مال ہوجائے گا‘ مودی حکومت بورے کھول دے گی ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ گویا الیکٹرانک میڈیا کا بس چلتا تو وہ کہہ دیتا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے عام انتخابات 2014سے پہلے جو پندرہ پندرہ لاکھ روپئے اکاونٹ میں ڈالنے کی بات کہی تھی وہ اس بجٹ میں پوری کردی جائح گی یعنی سب کے اکاونٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ پہنچ جائیں گے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار سے ملک کی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے او رملک معاشی اور اقتصادی طور پر جس طرح سے اچانک کمزور ہوا ہے اس کے باوجود تجزیہ نگار اچھے بجٹ کی بات کررہے تھے۔
اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہوئی کہ بجٹ آنے کے بعد کچھ تجزیہ نگار بجٹ کی تعریف بھی کرتے نظر ائے جبکہ صاف صاف نظر آرہا ہے کہ مودی حکومت چاہتے ہوئے بھی انتخابی جیسا بجٹ پیش نہیں کرسکی۔اگر میری بات ٹھیک نہیں تو پھر ٹی ڈی پی‘ شیوسینا او دوسری این ڈی اے میں شامل پارٹیاں مودی حکومت کے اس بجٹ سے ناراض کیوں ہیں؟اگر ایسا نہیں توپھر انہیں چاہئے تھا کہ2019میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بجٹ کی خصوصیات بیان کرتیں۔ ہم سب کو یاد ہے او رویڈیو کلپ بھی اگر تلاش کریں تو مل جائے گی کہ وزیراععظم نریندر مودی نے وعدہ کیاتھا کہ وہ سال میں دوکروڑ نوجوانوں کو روزگار دیں گے اور اس طرح پانچ سال میں وہ دس کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کی گیارنٹی دے رہے تھے لیکن ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ نوٹ بندی سے دس کروڑ سے بھی زائد نوجوان بے روزگار ہوگئے ۔
چھوٹی صنعتیں بند ہوگئیں۔ نوٹ بندی کے بعد تھوڑی کمر سیدھی ہوئی تھی تو جی ایس ٹی نے ایک اور زوردار لات ماری تو اب کوئی اٹھ نہیں پارہا ہے ۔ امید یہ تھی کہ شاید عام انتخابات کے پیش نظر مودی حکومت بجٹ میں کچھ راستہ کھول دے گی تو وہ بھی نہیں ہوا۔ ٹیکس کے سلیب میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی: پرائیوٹ سیکٹر کو کوئی فائدہ نہیں دیاگیا‘ مڈل کلاس جوکہ کسی بھی ملک کی ریڑھ ہوتا ہے ‘ اس کو گھاس تک نہیں ڈالا۔ پھیلایایہ جارہا ہے کہ اس مرتبہ مودی حکومت نے بجٹ میں بڑ ی سیاسی چال چلی ہے اور ساری توجہ گاؤں کے غریبوں‘ مزدور‘ کسانوں پر مرکوز کردی ہے لیکن معاف کیجئے گا اس میں بھی کچھ بھی نہیں ہے۔اب ذرا راجستھان اور مغربی بنگال کے ضمنی انتخابات کی بات کرلیتے ہیں۔
راجستھان میں لوک سبھا کی دوا اور اسمبلی کی ایک سیٹ ضمنی انتخابات ہوئے جس میں بی جے پی کو صرف شکست نہیں ہوئی بلکہ بری طرح سے شکست ہوئی ہے او رکانگریس نے وہاں شاندار طریقہ سے واپسی کی ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی او رٹی ایم سی کی شاندار جیت ہوئی۔ ٹی ایم سی کی امیدوار مرحوم سطان احمد کی اہلیہ نے تقریبا پانچ لاکھ ووٹوں سے جیت درج کرائی۔ راجستھان او رمرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے پھر بھی یہاں کے ضمنی انتخابات میں شکست حیرت انگیز ہے۔
بی جے پی کی طر ف سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیاگیا کہ آخر ضمنی انتخابات میں اس قدر شکست کیوں ملی؟جبکہ انتخابات سے قبل الور کرایاگیا او رالور کے بعد یوپی میں کاس گنج ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ فلم پدمات کے تنازع کو طول دیاگیا۔ کیایہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ضمنی انتخابات ہونے کے بعد کرنی سینا نے قبو ل کرلیا کہ فلم پدماوت اچھی ہے اور اسے سب کو دیکھنا چاہئے۔ اب جبکہ راجستھان کی الور سیٹ پر بھی کانگریس کا قبضہ ہوگیا ہے تو کیایہ مان لیاجائے کہ کانگریس کو کامیاب بنانے والے ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہوگئے ہیں؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ راجستھان میں بی جے پی کی طرف چلائے جانے والے سارے تیر خطا کرگئے۔ نفرت کی اٹھائی گئی ساری دیواریں مہند م ہوگئیں۔
اگر اس میں صداقت ہے جیسا کہ نتیجہ سے لگ رہا ہے تو کیا یہ مان لیاجائے کہ بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے ؟ او رکانگریس مکت بھارت کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوہائے گا۔ جب گجرات اسمبلی انتخابات میں22سال بعد بی جے پی 100سیٹ تک نہیں پہنچ سکی اور 99سیٹوں پر رک گئی او رکانگریس جیت سے تھوڑا پہلے ٹھر گئی تو ایک بات جو نکل کر ائی تھی وہ یہ کہ کانگریس مکت بھارت آسان نہیں ہے ۔ اب جبکہ راجستھان میں زبردست کامیابی ملی ہے تو کانگریس ذراجیت کے موڈ میںآگئی ہے جبکہ بی جے پی میں خوف ہے۔ ابھی اتر پردیش کی دولوک سبھا گورکھپور اور پھول پور سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔
اب بی جے پی کو ڈر پیدا ہوگیا ہے کہ اگر ان دنوں سیٹوں پر شکست ہوتی ہے تو اس کا اثر عام انتخابات 2019پر پڑنا طے ہے چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان سیٹوں کے انتخابات پر تاخیر کرائی جارہی ہے ۔ اب کیرانہ کے رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ بھی نہیں رہے تو اس سیٹ پر بھی الیکشن ہونا ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ 80میں سے 73لوک سبھا سیٹوں پر قبضہ کرنے والی بی جے پی کے لئے مشکل تو ہے۔ مشکل یہ ہے کہ وہ عام انتخابات میں جواب کیادے گی؟کیا اب بھی بی جے پی یہ کہے گی کہ اس کا فیصلہ ٹھیک تھا؟ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی بالکل درست فیصلہ ہے یا پھر اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرے گی۔ کیا وہ اقتدار کے لئے پھر ہندو توکارڈ کھیلے گی؟ کیا یہ سارے تیر نشانے پر لگیں گے؟ یہ بڑا سوال ہے۔