کیا آپ کے سی آر کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں’عظیم اتحاد‘ کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے؟۔

حیدرآباد۔ریاست تلنگانہ کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے لئے تشکیل دئے گئے نئے عظیم اتحاد کو ٹی آر ایس سربراہ کے سی آر مسلسل نشانہ بنارہے ہیں جس کا مقصدٹی آر ایس کے دبابے کو قائم رکھنا اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اثر کو کم کرنا ہے۔

ایسا کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ عظیم اتحاد کا کوئی اثر نہیں ہوگا اور اس کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ٹی آر ایس کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے لئے نو تشکیل شدہ عظیم اتحاد اپنے اصولوں کو بالائے طاق رکھا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ عظیم اتحاد کا پوری ریاست میں زیادہ اثر نہیں ہوگا‘ مگر کچھ حصوں میں مخالف حکومت بڑھتے رحجان کا وہ فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اس ضمن میں دی ہینس انڈیا کے ریڈرس کی آواز کیاکہتی ہے ذرا جاننے کی کوشش کریں گے۔


ورنگل کے ساکن ایک صنعت کار این وینکٹ نارائنہ کا کہنا ہے کہ ’’ جی ہاں کے سی آر کا یہ کہنا صحیح ہے کہ عظیم اتحاد کوعوامی تائید نہیں ہے۔

وہ اتحاد کس طرح بہتر حکمرانی کا دعوی پیش کرسکتا ہے جو سیٹوں کی تقسیم میں ایک رائے قائم نہیں کرپارہا ہے۔کانگریس کی زیرقیادت اتحاد اب بھی اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنے کی جدوجہد میں ہے۔

ایک دوسرے کے درمیان اتفاق رائے سے محروم اتحاد پر عوام کو بھروسہ آنا مشکل ہے۔

ہنمکنڈہ کے ساکن پیشہ سے ٹیلر میڈی شیٹی کشن نے کہاکہ ’’ عظیم اتحاد کے پاس عوام کی تائید ہے۔

حالانکہ ٹی آر ایس سربراہ کے سی آر کا کہنا ہے کہ عظیم اتحاد کو عوام کی تائید حاصل نہیں ہے‘ لوگوں کی سونچ ہے وہ بہتر حکمرانی کے لئے متبادل کی متلاشی ہیں۔کے سی آر ذہنی کھیل کے ماہر ہیں مگرمجوزہ اسمبلی انتخابات میں انہیں ہار کی دھول چاٹنا پڑے گا۔

ناچارام کے خانگی ملازم بی پرکاش کا کہنا ہے کہ’’نہیں میں کے سی آر کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ پروفیسر ایم کودانڈرام جو ٹی جے ایس کے چیف ہیں ان کاتلنگانہ ریاست کی تشکیل میں کافی اہم رول رہا ہے۔

انہوں نے کبھی بھی اس کا سیاسی فائدہ نہیں اٹھایاحالانکہ ٹی آر ایس پارٹی کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہیں پیشکش بھی کی گئی تھی۔

انتخابات کے بعد انہوں نے او رتلنگانہ تحریک کے دیگر جہدکاروں نے واچ ڈاگ کی طرح کام کرنے کا اعلان کیاتھا۔جب ٹی آر ایس اپنے وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہوگئی تب انہوں نے نئی پارٹی قائم کی تاکہ ٹی آر ایس کو شکست دیں

۔تلگودیشم لیڈرس جس کا حیدرآباد کی سیٹلرس پر مشتمل ایک مضبوط ووٹ بینک ہے نے جے ڈی ایس او رکانگریس کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے مہاکوٹمی کی تشکیل عمل میں لائی ہے اور عظیم اتحاد کے قیام کی وجوہات سے عوام واقف ہے۔ یقیناًجو لوگ ٹی آر ایس سے خوش نہیں وہ عظیم اتحاد کے حق میں ہی اپنے ووٹ کااستعمال کریں گے۔

کریم نگر کے ساکن ایم نریش جو انٹرنٹ کیفے چلاتے ہیں نے کہاکہ ’’ فی الحال عظیم اتحاد کو عوام کی تائید حاصل ہے۔ مذکورہ ٹی آر ایس عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے بالخصوص سرکاری ملازمتوں کے خواہش مند لوگوں کے لئے جس کے سبب عظیم اتحاد کی تشکیل کے راستے ہموار ہوئے۔

آنے والے ہر دن کے ساتھ عظیم اتحاد طاقتور ہورہا ہے ‘ حالانکہ امیدواروں کے ناموں کے اعلان میں تاخیر ہورہی ہے اس کے باوجود بھی لوگ اتحاد پر بھروسہ دیکھارہے ہیں۔ لہذا میں کے سی آر کی اس بات سے اتفاق نہیں رکھتاجس میں کہاگیاہے کہ عظیم اتحاد کوحمایت حاصل نہیں ہے۔

نلگنڈہ میں گروسری چلانے والے شیلا سرینواس نے کہاکہ ’’ میں کے سی آر کی بات سے اتفاق نہیں رکھتا کہ عظیم اتحاد کو عوام کی تائید حاصل نہیں ہے۔ لوگ اچھے مقابلے کرنے والے پارٹیوں کے امیدواروں او ران کی سیاسی جماعتوں سے اچھی طرح واقف ہیں

نلگنڈہ سے لکچرر سیدولونے کہاکہ ’’ یہاں تک کہ ٹی آر ایس سے مقابلہ کا حوصلہ عظیم اتحاد میں شامل پارٹیو ں میں ہے ‘ مگر سیٹوں کی تقسیم او رامیدواروں کے ناموں کے اعلان کا جیت کے موقع پر اثر پڑسکتا ہے۔

اگر اتحاد میں شامل لیڈران متحد ہوکر مقابلہ نہیں کریں گے تو ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا؟


امیرپیٹ کے ساکن جے اے نارائن ریڈی نامی صنعت کار نے کہاکہ ’’ نہیں میں کے سی آر کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتا کہ عظیم اتحاد کوعوامی تائید حاصل نہیں ہے۔یہ متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آیاہے۔

مخالف حکومت رحجان میں لوگوں کو سوالات ہیں کہ کس کو وٹ دیں۔کانگریس نے تلگودیشم ‘ ٹی جے ایس اور سی پی ائی کے ساتھ ہاتھ ملاکر عوام کو ایک متحدہ پلیٹ فارم فراہم کیاجس ٹی آر ایس کو سبق سیکھانے کے لئے بے چین ہے۔


عادل آباد کے ساکن بے روزگار نوجوان جی مرلی دھر ’’ ہردلت خاندان اور دیگر۔ کے چندرشیکھر راؤ نے پی آر سی اور اسٹیٹ ملازمین کو عارضی راحت دینے کااعلان کیاتھا۔ تاہم اب تک کسی بھی سرکاری نوکر کو ائی آر نہیں دیاگیاہے۔

اس مرتبہ کسی بھی صورت میں لوگوں کی حمایت عظیم اتحاد کیساتھ رہے گی۔