اس با ت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پورے ملک کے عام لوگوں کومندر مسجد کی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے‘ عوام کی اکثریت یہی چاہتی ہے کہ اس معاملے پرسپریم کورٹ ہی اپنا فیصلہ سنائے مگر گذشتہ اٹھ دس مہینوں سے سنتوں‘ سادھوں اور باباؤں نے اس معاملے کو گرم کرنے ہر ممکن کوشش کی ہے ۔
پہلے یہ گروپ شری شری روی شنکر کا جامہ پہن کر سامنے آیا او رآپسی مفاہمت سے مندر بنانے کے فارمولے نکالنے کے لئے مسلم قیادت کو دانہ ڈالنے لگا۔ شری شری سے کچھ بڑے قدکے مسلم لیڈروں نے ملاقاتیں کیں توکچھ کوتاہ قد بھی اپناقد بڑھانے کے لئے ملے‘ کچھ چھپ کر ملے کچھ ذاتی ملاقات کا لیبل لگاکر ملے‘ لیکن مفاہمت کے مردے میں جان نہ پڑسکی۔
اس ناکامی کے بعد مندر بنانے میں عجلت کرنے والے طبقے نے سپریم کورٹ سے یہ توقع کرلی کہ وہاس کے اشاروں پر چلے گالیکن سپریم کورٹ نے ان کی زبانوں میں بڑا ساتالا ڈال دیا۔اب مندر کی تعمیر میں عجلت کرنے او رالیکشن سے قبل مندر کی تعمیر کاکام شروع کرنے کے خواہشمندوں نے مودی سرکار پر دھونس جمانا شروع کردی ہے۔
یہ لوگ مودی جی طرح طرح کی دھمکیاں دے کر بتانا چاہتے ہیں کہ مودی جی کی گدی ان ہی کے ہاتھ ہے او راگر مودی جی لوک سبھا کے لیکشن سے قبل مندر بنانے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تو وہ مودی جی کو سبق سیکھائیں گے ۔
مگر سادھوں سنتوں کی دھمکی کا تو مودی پر فی الحال کوئی اثردیکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ بلکہ اس معاملے میں نریند رمودی نے اتنی زبردست خاموشی اختیار کی ہے کہ سنتوں کادم گھٹا جارہا ہے ۔ او ران کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ مودی جی کی زبان کس طرح کھلوائیں۔
ویسے کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سادھو ں سنتوں کی طرف سے جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بی جے پی کی اعلی قیادت کیساتھ ملی بھگت کے تحت ہی ہورہا ہے۔ مگر مودی جی او رامیت شاہ اس معاملے میں زبردست خاموشی کچھ اور ہی کہانی کہہ رہی ہے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ساڑھے چار سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی بی جے پی نے مندر بنانے کے سلسلے میں کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟
کیوں آج بھی بی جے پی کی اعلی قیادت یہی کہہ رہی ہے کہ وہ عدالت کا فیصلہ مانے گی یاپھر آپسی مفاہمت سے کوئی حل نکالے گاتو اس کو قبول کرے گی؟۔ یہاں پر سوال یہی سوال اٹھتا ہے کہ کیابی جے پی کے اسی رویہ سے تنگ آکر کچھ سنت ملک کاماحول خراب کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں؟ کیاسادھو اپنی مذہبی حیثیت کے بوجھ تلے ملک کے اہل سیاست کا دبانا چاہتے ہیں اور اہل وطن کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ مودی کی عنان حکومت ہمارے ہاتھ میں ہے؟
ادھر جو لوگ مودی کے مزاج سے واقف ہیں ان کولگتا ہے کہ سادھو سنت مودی کو جھکانے میحں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ نریندر مودی کا مزاج ایسا ہے کہ کوئیا بھی ان کو اپنے اشاروں پر نہیں چلاسکتا۔ اس سے قبل وہ اپنے مزاج کا مزہ بھاجپا کی اعلی قیادت کو چکھا چکے ہیں ۔ انہوں نے مندر کے نام پر ملک کی قیادت حاصل کرنے والی پرانی قیادت کو بے دست وپا کرکے یہ بتادیاتھا کہ وہ مندر کے نام پر نہیں پنی شخصیت کی بنیاد پر حکومت کریں گے ۔
یہی وجہہ تھی کہ مودی نے 2014کی انتخابی مہم میں کہیں مندر کے نام بھی لیا او راس بار بھی ان کی طرف سے مندر کے نام پر الیکشن لڑے جانے کا کوئی عندیہ ابھی تک تو نہیں دیاگیاہے۔ اتنا ہی نہیں مودی نے پروین توگڑیا جیسے طاقتو ر ہندو لیڈر کے سیاسی کیریر ختم کرکے بتادیا کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں او ران کو کوئی بھی ہندو لیڈر اپنے اشاروں پر نہیں چلاسکتا۔
وشواہند وپریشد کو ایک طرح سے کونے میں کھڑا کرنے کاکام بھی مودی نے ہی کیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایودھیا کے نام پر پورے ملک میں تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے سادھو سنتوں سے مودی کیسے نمٹتے ہیں ۔ ویسے مودی کو معلوم ہے کہ سادھو سنتوں کو پیچھے عوام نہیں ہیں۔اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں کہیں بھی رام مندر کے نام پر الیکشن نہیں لڑاجارہا ہے۔