کیامسجد اسلام کے لئے ضروری ہے؟ اس سوال سے بابری کیس میں تاخیر کا امکان

نئی دہلی۔سیاسی طور پر حساس ایودھیا اراضی معاملہ اور کیس تعطل کاشکار بن سکتا ہے کیونکہ جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے فیصلہ کیاہے کہ 1994میں دستور بنچ کہاتھا کہ ’’ مسجد اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے‘‘ کی دوبارہ ایک دستور بنچ جانچ کرے گی۔

چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا اورجسٹس اشوک بھوشن اور ایس عبدالنظیر نے کہاکہ پانچ رکنی بنچ مسجد اسلام کا ضروری حصہ ہے یا نہیں اس کی جانچ کریگی‘ مگرانہوں نے اس مطالبہ کو تبدیل کردیا جو ستر سالوں سے ہندو اور مسلم سماج کے درمیان میں بابری مسجد رام جنم بھومی کی تین ایکڑ اراضی کی ملکیت کولے کر عدالت میں قانونی لڑائی چل رہی ہے۔یہ معاملہ بھی بڑی بنچ کے حوالے کردیاگیا ہے۔

حقیقی درخواست گذار ایم صدیق کے سینئر وکیل راجیودھوان نے کہاکہ سارے معاملے کو بڑی بنچ کے حوالے کردینا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ’’ صرف ایک حصہ کیوں تمام معاملے کو دستوری بنچ کے سپرد کردینا چاہئے‘‘۔

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے دعویدار وکلاء نے اسمعیل فاروقی کے 1994کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے پر اعتراض جتاتے ہوئے کہاکہ یہاں پر دستور بنچ کے سپرد معاملے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ موجودہ تین ججوں کو ایودھیا تنازع کیس کی سنوائی کرنے چاہئے۔

تاہم مذکورہ بنچ کہاکہ مسلم سماج کی جانب سے مسجد کو عبادت کی جگہ اور اسلام کا بنیادی مستقبل قراردیتے ہوئے دائر کی گئی درخواست کی جانچ ضروری ہے۔بنچ نے کہاکہ ’’ پہلے اس تنازع ( مسجداسلام کا ضروری حصہ) کی آخر تک سنوائی ضروری ہے‘‘۔

سال1994کے اسمعیل فاروقی کیس میں ایس سی نے کہاتھا کہ ’’ ایک مسجد مذہبی امور کی انجام دہی اور نماز کے لئے مسلمانوں کے واسطے ضروری اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے کیونکہ مسلمان نماز کہیں پر بھی ادا کرسکتے ہیں‘ یہاں تک کے کھلے مقام پر بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔

اسکے مطابق اس کاحصول دستور ہند کے مطابق ممنوع نہیں ہے‘‘۔

دھوان نے اپنے دوگھنٹے طویل بحث میں اس بات پر اتفاق کیاہے کہ فاروقی کے کیس پر معزز عدالت میں غلط انداز میں فیصلہ لیاگیاہے اور یہ فیصلے سپریم کورٹ کے سابق فیصلے کے متضاد ہے۔

دھوان نے کہاکہ ’’ ایک مسجد ہمیشہ قائم رہنے والا مقام ہے ۔ اس کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوتی انہدام کے بعد بھی وہ عبادت کی جگہ ہی باقی رہتی ہے‘‘