کھلے زخم۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہاشم پوری قتل کا نئے شواہد کی روشنی میں جائزہ لے

جنرل ڈائری میں پی اے سی کے جوانوں کے نام جو تین دہے قبل مبینہ طور پر ہاشم پورہ کے کم سے کم چالیس مکینوں کے قتل میں ملوث ہونے والوں کی مذکورہ کیس میں برات کے متعلق سنجیدہ سوالات پیدا ہورہے ہیں

۔دہلی کی ایک نچلی عدالت نے سال2015میں استغاثہ کی جانب سے موثر شواہد کی عدم پیشکش کی بناپر ہاشم پورہ میں زیر تحویل چالیس مسلمانوں کے قتل کے الزام سے بری کردیا۔

پچھلے ہفتہ قومی انسانی حقوق کمیشن کی ایک درخواست پر دہلی ہائی کورٹ نے تیز ہزاری کورٹ کو ہدایت جاری کرنے کے بعد مذکورہ ڈائیری تازہ شواہد کے طور پر پیش کئے گئے ۔ہاشم پورہ کیس میںیہ دستخطی مہم ہے۔

نئے شواہد کی بناء کو ان ہلاکتوں کی ازسر نوجائزہ لینے کی ضرورت ہے‘ جو آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے سیاہ باب بھی کہلایاجائے گا۔دیگر فرقہ وارانہ فسادات کے مقابلہ ہاشم پورہ کی نوعیت بلکل الگ ہے۔

شہریوں کی حفاظت کے ذمہ دار مصلح دستوں پر اکثریتی فرقہ وارانہ سونچ کی وضاحت کی غرض سے مسلمانوں کو منظم طریقے سے قتل کرنے کا الزام عائد کیاگیاتھا۔تقریبا31سالوں تک سنوائی چلے مگر استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

عدالت نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ ہلاکتیں پیش ائی اور نعشوں کو ایک ٹرک میں بھر کر ( جو پی اے سی ) کا تھا ہندون ندی میں پھینک دیا۔تاہم شواہد کی کمی کے سبب عدالت نے ملزمین کو ماخوذ کرنے سے انکار کردیا۔

مذکورہ کیس ڈائری جو تیس ہزار کورٹ میں پیش کی گئی ہے اس کو تین تحقیقی عہدیداروں نے تیار کیاہے جنھوں نے 1987میں چارچ شیٹ تیارکی ہے ان میں ایک 78سال کے رنبیر سنگھ بشنوائی ہے جو اس خلاء کو پر کرسکتے ہیں۔ یہاں پر ایک وجہہ ہے جو سی بی ۔

سی ائی ڈی کی کیس میں تحقیقات پر شبہ پیدا کرسکتا ہے اور یہی وجہہ ہے کہ ملزمین کو شبہ کی بنیاد پر فائدہ پہنچاہے‘ ریاستی ادارے نے نہ صرف ہلاکتوں کو مشکوک بنانے کاکام کیاہے بلکہ قاتلوں کو بھی بچانے کی راہ بھی ہموا رکی ہے۔