گرگاؤں۔مختلف ہندوتوا تنظیموں سے وابستگی کے دعوے دار پانچ سو لوگوں کے قریب پیر کے روز سڑکوں پر اتر کر ان چھ لوگوں کی حمایت میں نعرے لگائے جنھیں جمعہ کے روز سکیٹر 43کے میدان میں ادا کی جارہی نماز میں خلل ڈالتے ہوئے شر انگیزی کے بعد پولیس نے گرفتار کرلیاتھا۔احتجاجیوں نے مطالبہ کیا کہ ایف آئی آر منسوخ کرکے اور اسی کے ساتھ سرکاری اراضی اور کھلے مقام( جیسے سکیٹر 43) میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر نماز کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیاجائے۔
گرگاؤں پولیس کے ترجمان رویندر کمار نے کہاکہ پولیس شکایت کے بعد پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے چھ لوگوں کو گرفتار کرلیاگیا۔کمارنے کہاکہ ہم ’’ کمیونٹی کی بناء پر کسی تفرقہ نہیں کرتے ۔
ہم نظم ونسق کی برقراری اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتے‘ قانون کا نفاذ ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔ سوشیل میڈیا پر20اپریل کے روز نماز جمعہ کے دوران خلل پیدا کرنے والے چھ لوگوں کا ویڈیو وائیرل ہونے کے بعد وزیر آباد اور کانہائی گاؤں کے چھ لوگوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی۔
پیر کی صبح قدیم دہلی کے گرگاؤں میں واقعہ کملا نہرونگر میدا ن میں مختلف تنظیموں کے لوگ جمع ہوئے اورمذکورہ گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا‘ احتجاج اجلاس کے بعد چھوٹے سکریٹریٹ کی جانب وہ لوگ مارچ بھی کئے ‘ بعدازاں ایک میمورنڈم بھی پیش کیا جس چیف منسٹر اور ایڈیشنل کمشنر آر پی سنگھ کو لکھا گیاتھا۔
مہاویربھردواج نے کہاکہ ’’ بناء انتظامی منظوری کے سرکاری اراضیات پر مذہبی اجتماع ایسے زمین پر قبضہ کی کوشش کا حصہ ہے۔ حکومت چاہئے کہ اس طرح کی منظوری دینے سے گریز کرے‘‘۔ احتجاج جوائنٹ ہندو سنگھرش سمیتی کے بیانر پر کیاجارہا تھا جس کو وشواہند وپریشد‘ اکھیل بھارتیہ ہندو کرانتی دل‘ بجرنگ دل وغیرہ کی حمایت حاصل ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ حکومت کو ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے ائی ڈی کارڈس کی بھی جانچ کرنی چاہئے۔
شہر کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد چھ لاکھ ہے اور جمعہ کے روز ایک سو دس کھلے مقامات پر وہ نماز ادا کرتے ہیں۔سیکٹر 43کے میدان میں نماز اد ا کرنے والے شہزاد خان کا کہنا ہے کہ ’’ ہم جمعہ کے ایک روز کچھ منٹوں کے لئے وہا ں پر کسی کو تکلیف دئے بغیر نماز ادا کرنے جمع ہوتے ‘‘