حالانکہ یہ ان کا پہلا الیکشن ہے ‘ بی جے پی کے مطابق ہر کوئی یہ سن رہا ہے کہ سابق جے این یو اسٹوڈنٹ یونین صدر مقابلہ کررہے ہیں جن پر سیڈیشن کے الزامات درج ہیں اور وہ تکڑے تکڑے گینگ کا حصہ ہیں۔
پٹنہ۔ بیگوسرائے کے ساتھ اسمبلی حلقوں میں سے ایک چاریہ باریہ پور کے لئے سی پی ائی کوارڈینٹر امیت سنگھ گیارہ بجے کے وقت کنہیا کمار کے حامیوں کی کثیرتعداد کے ساتھ انتظار کررہے تھے‘ جس کو یہاں پر آنے میں تاخیر ہوگئی ۔
بالآخر سی پی ائی امیدوار چھ گاڑیوں کے ساتھ کاولا کاڈی میں پہنچے ‘ جن کے ان حامی موٹر سیکلوں پر نعرے لگاتے ہوئے ان کے ساتھ تھے۔
ایک مقبول نعرہ’’ جئے کنہیالال کی ہاتھی گھوڑا پالکی‘‘اور ایک گیت جس میں لوگوں پر زوردیاجارہاہے کہ کنہیا کو پارلیمنٹ بھیجنا ہے۔
ہلکی اودے رنگ کا شرٹ زیب تن کئے ہوئے ان کی الجھی ہوئی آنکھیں بتارہی تھیں کہ نیند کی کمی ہے ‘ کنہیا نے اپنا کار کی چھت سے نکل کر ایک مختصر تقریر کی ۔
پارہ تقریبا 35ڈگری کو چھو لیاتھا ‘ وہ پہلے ہی تین اسمبلی حلقوں کو دور ہ کرچکے تھے اور یہ چوتھا حلقہ تھا ۔
بیگوسرائے میں جہاں پندرہ دن باقی رہ گئے ہیں رائے دہی کے لئے ‘ دیگر پندرہ گاؤں کو احاطہ کرنے کا ان کا منصوبہ تھا‘ ان میں سے زیادہ تر گاؤں مسلم اکثریت والے ہیں۔
حالانکہ یہ ان کا پہلا الیکشن ہے ‘ بی جے پی کے مطابق ہر کوئی یہ سن رہا ہے کہ سابق جے این یو اسٹوڈنٹ یونین صدر مقابلہ کررہے ہیں جن پر سیڈیشن کے الزامات درج ہیں اور وہ تکڑے تکڑے گینگ کا حصہ ہیں۔
ان لوگوں میں جنھوں نے اب تک کنہیاکمار کی مہم کی حصہ لینے کے لئے بیگوسرائے پہنچے ہیں ان میں گجرات کے دلت لیڈر جگنیش میوانی‘ ادکارہ سوارا بھاسکر‘ روہت ویمولہ اور نجیب احمد کی مائیں‘ تیستا ستلواد ‘گرمیہر کور‘ اور ایک درجن سے زائد یونیورسٹی کے ساتھ جن میں شہلا رشید بھی شامل ہیں ۔
تمنا خان 26سالہ کو کنہیا کمار کے قافلے کو موٹر سیکل پر فالو کررہی تھیں انگریزی میں ماسٹرس ہیں اور پڑوسی گاؤں اجنی کی رہنی والی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ وہ ’’ نوجوان‘ متحرک اور سچ بولنے والے ‘‘ امیدوار کی حامی ہیں جو ’’ ذات پات او رمذہب کی سیاست سے بالاتر ہے۔ عام طور پر کنہیا کی تقریریں سیاست دانوں کی طرح نہیں ہوتی ۔
پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ہمارے لئے بہتر امید کی موجب بنے گی‘‘۔
خان کی طرح کئی اسٹونٹس بھی کنہیا کے ہجوم میں شامل تھے ‘ جو کہہ رہے تھا کہ بہار بھر سے رضاکارانہ طور پر وہ یہاں پہنچے ہیں ۔
پرمود کمار جنھوں نے دہلی یونیورسٹی سے انجینئرنگ پورا کیا ہے نے کہاکہ انہوں نے یہاں آنے او رمہم چلانے کے لئے انہیں ملی نوکری کی پیش کش کو ٹھکرادیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ’’ میں کنہیا کو 2016سے جانتاہوں ۔ اگر نوجوان کنہیا جیسے سچ اورحق بولنے والے امیدوارکو نہیں جتائیں گے‘ تو جمہوریت کی بات کرنا ہی غیرمعنیٰ ہوجائے گا‘‘