کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کوایودھیا تنازعہ سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے

بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد رشیدی فرنگ موہالی نے کہاکہ عدالت کے فیصلے کو ہم سب احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
لکھنو۔ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سینئر رکن نے آج ’ مسجد اسلام کا اہم جز ہے یہ نہیں‘ کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہاکہ اسکو ایودھیاتنازعہ سے جوڑنانہیں چاہئے۔اس فیصلے سے صاف ہوگیاہے کہ مندر مسجد معاملے کی سنوائی آستھا کی بنیاد پر بلکل ہی نہیں ہوگی۔

بورڈ کے سینئر رکن مولانا خالد رشید فرنگی نے کہاکہ عدالت کا فیصلے کا ہم سب احترام کرتے ہیں۔حالانکہ ہم چاہتے تھے کہ اسماعیل فاروقی ولے معاملے کو دستوری بنچ نے سامنے رکھا جائے‘ تاکہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے۔

مولانا فرنگی نے کہاکہ ’’ لیکن آج کے فیصلے سے دو بہت اہم باتیں نکل کر ائی ہیں۔ پہلا یہ کہ ایودھیامعاملہ کو سنوائی مبینہ طور پر آستھا کی بنیاد پر نہیں ہوگی ‘ بلکہ صرف ملکیت کاتنازعہ کے طورپر ہوگی۔

دوسرایہ ہے کہ اسماعیل فاروقی کی عدالت کو جوبھی نظریہ تھا اس کاکوئی بھی اثر ایودھیامعاملے پرنہیں پڑیگا‘‘۔مولانا نے کہاکہ اب 29اکٹوبر کو ایودھیا معاملے کا اعلان کیاگیا ہے‘جس سے امیدجاگی ہے کہ معاملے کو اختتامی سنوائی جلد سے جلد ہوجائے گی۔

انہو ں نے ایک سوال پر کہاکہ اس معاملے میں جہاں تک مذہبی نظریہ کا سوال ہے تو مسجد کا بنیاد ی مقصد ہی نماز ادا کرنا ہوتا ہے ۔

مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ یہ بات قرآن ‘ حدیث اور اسلامی قانون سے پوری طرح ثابت ہے۔مولانا نے کہاکہ سپریم کورٹ ملک کی سب سے اونچی عدالت ہے اور ایودھیا معاملے کی سنوائی کے معاملے میں اس کو مجوزہ لوک سبھا الیکشن سے جوڑ کر دیکھنا مناسب نہیں ہوگا۔

ہم سب کی خواہش ہے کہ اس معاملے میں جو باتیں ہیں‘ جنتا بھی مجوزہ او رموجودہ بحث ہے‘ وہ پورے اطمینان اور سکون سے عدالت کے سامنے رکھا جائے اور اس کے بعد ہی عدالت کوئی فیصلہ دے۔

انتخابات سے جوڑ کر بلکل بھی نہ دیکھا جائے۔بورڈ کے ایک اورسینئر رکن اور ظفر یاب جیلانی نے کہاکہ سپریم کورٹ کا آج کے فیصلے کوایودھیا معاملے سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔

انہو ں نے کہاکہ آج بھی فیصلہ آیا ہے وہ صرف تکنیکی مسلئے سے جڑا ہے۔

عدالت نے صاف کردیا ہے کہ 1994میں اس سلسلہ میں آیافیصلہ ایک خاص وجہہ سے جڑ ا تھا اور اس کا ایودھیاتنازعہ پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔

بتادیں کہ سپریم کورٹ نے ’ مسجد اسلام کا اہم جز ہے یا نہیں‘ کے بارے میں عدالت کے 1994کے فیصلے کو دوبارہ سے جائزہ لینے کے لئے پانچ ججو ں کی دستوری بنچ تشکیل دینے کی عرضی کو ایک روز قبل خارج کردیا ہے۔