کلدیپ نیئر رخصت کیا ہوئے ہندوستانی صحافت کا ایسا عظیم او رپختہ ستون منہدم ہوگیا ہے جس کے دم سے میڈیا کی آزادی پر اٹھنے والے سوالات کے اس دور میں بھی صحافت کا وقار قائم تھا ۔اس عظیم سپاہی کو صحیح معنوں میں قلم کا سپاہی کہا جاسکتا ہے ۔ان کا آخری مضمون ملک و بیرون ملک متعدد اخبارات میں شائع ہوا ہے ۔اب ان کا قلم خاموش ہوچکا ہے ۔ان کی شخصیت صرف ایک صحافی کی شخصیت نہیں تھی وہ ملک کے ہزاروں صحافیوں کے سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے ۔کلدیپ نیئر تقسیم ہند سے پہلے کا دور بھی دیکھا او ربعد کا دور بھی ۔ 1948ء میں اردو روزنامہ ’’انجام ‘‘ سے اپنے صحافتی دور کا آغاز کرنے والے کلدیپ نئیر کی صحافتی زندگی چھ دہائیو ں پر مشتمل تھی ۔مضامین لکھتے وقت ان کاضمیر پوری طرح بیدار رہتا تھا ۔اسی سے زائد اخبارات کیلئے بلاناغہ مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ کلدیپ جی نے پندرہ کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔
انہوں نے مرکزی حکومت کیلئے لکھا کہ ایک بات جو شاہ او ران کی پارٹی کو یاد رکھنی چاہئے یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین سیکولر ہے او رملک پر جو حکومت کرے اسے قولاً فعلاً اس پر عمل کرناہوگا ۔لیکن بد قسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کلدیپ نیر کو آر ایس ایس کے ایجنڈہ سے نفرت تھی ۔ صرف دو ہفتہ قبل اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ ہجومی تشدد میں ۲۰۱۰ء سے مرنے والوں میں ۸۶؍ فیصد مسلمان ہیں او ر۹۷؍ فیصد حملے ۲۰۱۴ء کے بعد ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تشدد معاشرہ کوتکثیر ی بنانے کی کوششوں پر المناک ہے ۔
کاش دور حاضر میڈیا کلدیپ نیئر کے اصولوں کی پاسداری کرے ضمیر کی آواز کو مشعل بنالے ۔