جموں او ر کشمیر میں صدر راج نافذ کئے جانے کے بعد بھی سکیورٹی فورسس اور احتجاجیو ں کے درمیان میں تصادم کی صورتحال برقرار ہے۔
ریٹائرڈ لفٹنٹ جنرل اور سرجیکل اسٹرائیک کے دوران شمالی آرمی کمانڈر رہے ڈی ایس ہڈا نے پرتگیا داس سے بات کرتے ہوئے ریاست کو درپیش چیالنجس اورامکانی حل کے متعلق بات کی۔
کشمیر کے موجودہ رحجان کا آپ کس طرح جائزہ لیتے ہیں؟
اگر آپ ریاست کے تین خطوں کودیکھیں تو لداخ ہمیشہ پرامن رہا ہے‘ جموں کی طویل اور سخت لڑائی ہے اور جنوبی علاقے کے پیر پانجال سے دہشت گردی کا صفایا کرنے میں بڑی حدتک کامیابی ملی ہے۔ تاہم کشمیر کی صورتحال میں پریشانی برقرار ہے۔
حالانکہ فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بے شمار جوابی اپریشن انجام دئے ہیں ‘ دیگر بگڑی تصوئیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مقامی سطح پر دہشت گردی سے جڑنے کے واقعات میں اضافہ‘ شہریوں اور سکیورٹی فورسس کے درمیان تصادم اضافہ‘بڑے پیمانے پر معاشرے میں انتہا پسندکی قبولیت‘ ان تمام واقعات کے نتیجے میں حکومت اس موقف میں ہے کہ الیکشن کراسکے۔
یہ وہ علاقے ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں پاکستان کے رویہ بھی میں تبدیلی نہیں آئی ہے وہ دہشت گردوں کو اپنی مدد جاری رکھے ہوئے ہے او رعصری ہتھیاروں سے لیز دہشت گرد کے ذریعہ عسکری سرگرمیوں کی انجام دہی میں مدد کررہا ہے
ہم کیو ں دیکھ رہے ہیں کہ مزید دہشت گرد شدت پسندی اختیار کررہے ہیں اور پتھر بازی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے؟۔
یہ دونوں جنوبی کشمیر کے نوجوانوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اتفاق سے ہر وقت ایک مقامی نوجوان قتل ہوتا ہے اور اس کی تدفین کے موقع پر جذبات سے مغلوب دیگر نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کے لئے اکسانے میں کامیابی مل جاتی ہے۔
یہ سلسلہ جاری ہے جس کو منقطع کرنے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی کا رخ اختیار کرنے والوں کے لئے بازآبادکاری کی ایک موثر اسکیم کا نفاذ ناگزیر ہے۔ میں سمجھتا یہ اتنا آسان نہیں ہے جیسا میں کہہ رہاہوں‘ مگر ایسی کوششوں کو انجام دینا ضروری ہے۔
کشمیری عوام کا فوج کس طرح اعتماد حاصل کرسکتی ہے؟
ہمیں ایسا نہیں سونچنا چاہئے کہ کشمیری کی مکمل آبادی فوج کے متعلق عدم اعتماد ہے۔
تاہم داخلی بحران کے حالات میں فوج پر یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ عوام کے درمیان میں اعتماد کو قائم کرے۔
اس کا بہتر راستہ پیشہ وارانہ برتاؤ ‘ عوام سکیورٹی کا احساس فراہم کرنا اور مقرر قوانین کے تحت کام کرنا ۔
مگر لوگوں کو بھی یہ ماننا ہوگاکہ’ کم سے کم فورس‘ کا مطلب ’’ فورسس کی عدم موجودگی‘‘ نہیں ہے۔
اگر ہجوم کے ذریعہ فوج پر حملے انجام دئے جاتے ہیں تو ردعمل کے سوائے ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔
کشمیر کا بہترین حل کیاہوسکتا ہے؟
یہا ں پر کوئی آسان حل نہیں ہے۔ میں سمجھتاہوں ہمیں چھوٹے اقدامات سے اس کی شروعات کرنے چاہئے۔
کشمیر کی سڑکوں پر امن قائم کرنے ترجیحات میں شامل ہے۔
پتھر بازی اور احتجاج سے سکیورٹی فورسس کو ہی مشکلات پیش نہیں آرہی ہیں یہ عام لوگوں کے لئے بھی روز مرہ کی تکلیف کا سبب بن رہا ہے۔
اگر ریاست لاء اینڈ آرڈر قائم نہیں کرکسی تو لوگوں کا حکومت پر سے بھروسہ ختم ہوجائے گا۔سڑکوں پر سے تشدد کو ختم کرنے کے حالات پید ا کرنا ضروری ہے جس کے بعد ہی بہت جلد الیکشن کرائے جاسکتے ہیں
آپ سمجھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان دوستانہ بات چیت کا دوبارہ آغاز کریں گے؟
پڑوسیوں سے بات چیت بھی ایک اچھی سونچ ہے۔ تاہم ہمیں یہ صاف کرلینا چاہئے کہ کشمیر کے موجودہ حالات کو حل کرنے میں ایسی بات چیت کچھ نہیں کرسکتی۔پاکستان کشمیر میں دہشت گرد سرگرمیوں کی مکمل حمایت کررہاہے‘ اور اگے بھی ایسا کرتا رہے گا۔یہ دیکھنا چاہئے کے وادی کے حالات اب بھی گرم ہیں۔
کیا سرجیکل اسٹرائیک فائدہ مند رہی ؟ہندوستان کو ایسے مزید اسٹرائیک کرنا چاہئے؟
نارتھرن کمانڈ نے 2016نے اوری حملہ میں اپنے سپاہیوں کے نقصان کے بعد اس کو انجام دیاتھا‘ اس وقت ہم نے صاف کردیاتھا کہ ایک سخت پیغام دینے کے لئے اسٹرائیک کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
ہمیں مزید اسٹرائیک کرنے چاہئے؟یقیناًہم کرسکتے ہیں‘ کیونکہ پاکستان مسلسل ہماری خطہ میں دہشت گردوں کو بھیج کردخل اندازی کررہا ہے ‘ ہمیں کوئی الجھن نہیں ہوگی۔ مگر اسٹرائیک کا وقت او رحالات کے متعلق سیاسی اور فوجی قیاد ت فیصلہ کرتے ہیں۔