ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مددگار ہوسکتا ہے اگر پاکستان بھی اپنے سرزمین پر پناہ لے رہے دہشت گرد گروپس کو کشمیر میں دہشت گرد حملوں کو روکنے میں کامیاب ہوجائے۔
جموں ۔ جموں او رکشمیر میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ بندی کے متعلق مرکزی فیصلے پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام چیف منسٹر محبوبہ مفتی کے لئے ریاست میں بی جے پی کا ساتھ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے مزیدکہاکہ یہ مددگار ہوسکتا ہے اگر پاکستان بھی اپنے سرزمین پر پناہ لے رہے دہشت گرد گروپس کو کشمیر میں دہشت گرد حملوں کو روکنے میں کامیاب ہوجائے۔
سابق شستر بل چیف ارون چودھری جنھوں نے انٹلیجنس بیور و میں بھی خدمات انجام دیتے ہوئے برسوں سے کشمیر میں کام کیاہے نے کہاکہ’’ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کی وجہہ سے محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی کے لیڈرس اور کارکن وادی میں بڑے دباؤ میں ہیں۔مرکز کی جانب سے لیاگیاکوئی بھی فیصلہ یہ ظاہر میں معاون ثابت ہوگا کہ مرکز ان کی بات کو کس حد تک سن رہا ہے او ران کے مطالبات کو کس حد تک قبول کررہا ہے‘‘۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ رمضان کے موقع پر جنگ بندی کے سبب زمینی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ائی ہے کیونکہ اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو جوابی کاروائی کا فوج کواختیا رحاصل ہے ‘‘۔
چودھری نے کہاکہ 2000میں جب اٹل بہاری واجپائی کی زیرقیادت نیشنل ڈیموکرٹیک الائنس نے جنگ بندی کا اعلان کیاتو یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا جو اس وقت کے چیف منسٹر فارو ق عبداللہ سے با ت چیت کے بعد لیاگیاتھا۔جو زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا تھا۔
چودھری نے کہاکہ’’ سابق میں جو جنگی بندی ہوئی تھی اس میں دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسس کے خوف کے بغیر وادی میں گھومنے کی آزادی تھی اور وہ سری نگر ائیر پورٹ پر حملے کو بھی منظم طریقے سے انجام دیاتھا۔
مذکورہ حکومت نے اپریشن پر روک کے دوران اس با ت کو یقینی بنایا ہے کہ سکیورٹی فورسس کی نظر دہشت گردوں کی حمل ونقل پر ہے‘‘۔
سابق چیف ریسرچ اینڈ انلسیس وینگ( آر اے ڈبیلو) او روزیراعظم واجپائی کے کشمیر پر صلاح کار اے ایس دولت نے کہاکہ حکومت کا فیصلہ قابل استقبال ہے۔دولت نے کہاکہ ’’ میں اس کو بہایت مثبت اقدام مانتا ہوں او رمیں سنجیدگی کے ساتھ یہ بھی توقع کرتاہوں کہ پاکستان اپریشن پر روک کااحترام کریگا‘‘۔
سابق آرمی کمانڈنٹ ایل جی ڈی ایس ہڈا( ریٹائرڈ) نے کہاکہ تشدد کو کم کرنے والا کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کیاجانا چاہئے۔