کئی سالوں سے وادی کے لوگوں نے اپنے آبائی چنار کے بجائے جو جلد فروغ پانے والے”روسی چنار“ کو ترجیح دینا شروع کیاتھا‘ تیس‘ چالیس سال کے کشمیر چنار کے مقابلہ مذکورہ چنار دس سے پندر ہ سال میں اتنا ہی فروغ پاتاہے۔
ہر سال مئی میں کشمیر وادی کے اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس بڑے پیمانے پر علاج کے لئے مریضوں کی آمد کا سلسلہ بن گیا ہے‘ بالخصوص اس میں بچے شامل ہیں جنھیں تنفس کی شکایت درپیش ہے۔
مذکورہ مریض کھانسی‘ گلی میں خراش‘ بخار کی شکایت کرتے ہیں۔ اس موسم میں اس طرح کی بیماریاں مانو عام بات ہوگئی ہیں‘ جو اکثر کاٹن سے ڈھنکے چنار کے درخت کے پاس جانے سے ہوتی ہیں جس کو عام طور پر ”روسی چنار“ بھی کہاجاتا ہے۔
تین سال قبل جموں کشمیر ہائی کورڈ نے وادی میں روسی چنار کو روکنے کا حکم دیاتھا۔ دوسری طرف سائنس داں اس نتیجے پر پہنچے ہیں جو مذکورہ درختوں سے کسی قسم کی کوئی الرجی نہیں ہوتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ”روسی چنار“ ایک نام دیا گیاہے اس کا روس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کو 1982میں ایک ورلڈ بینک کے امدادی سمامی جنگلاتی اسکیم کے تحت متعارف کروایاگیاتھا۔
مذکورہ درخواست مغربی امریکہ مصالحہ ہے جس کو ایسٹرن کاٹن ووڈ کے نام سے بھی امریکہ میں جانا جاتا ہے۔
کئی سالوں سے وادی کے لوگوں نے اپنے آبائی چنار کے بجائے جو جلد فروغ پانے والے”روسی چنار“ کو ترجیح دینا شروع کیاتھا‘ تیس‘ چالیس سال کے کشمیر چنار کے مقابلہ مذکورہ چنار دس سے پندر ہ سال میں اتنا ہی فروغ پاتاہے۔
عہدیداروں کے ایک اندازے کے مطابق آج وادی میں 16-20ملین غیر کشمیری پیڑ پودے‘ درخت ہیں۔
مئی کے مہینے میں جب مذکورہ درخت فروغ پاتے ہیں تو یہ بیماری وادی میں پھیل رہی ہیں۔
اس سلسلے میں جموں کشمیر ہائی کورٹ نے واضح طور پر ہدایت دی تھی کہ اس کا استعمال نہ کیاجائے۔
ماہرین کی رائے میں روسی چنار کوئی الرجی کی وجہہ بننے والا درخت نہیں ہے