کشمیر میں امن مذاکرات کو نقصان پہنچانے کی کوشش۔

بڑے پیمانے پر اشتعال انگیزی کے باوجود مرکزکو رمضان میں کی گئی جنگ بندی میں امرناتھ یاترا تک توسیع کرنے ہوگی
جموں اور کشمیر۔ چیف منسٹر محبوبہ مفتی نے 6جون کے روز انتباہ دیا تھاکہ وادی میں ماہ رمضا ن کے آغاز کے ساتھ ہی کی گئی’’ جنگ بندی کو دہشت گرد سبوتا ج کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔

وادی میں پرتشدد حالات پر قابو پاتے ہوئے عام زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کو روکنے کے لئے 14جون کے روز سلسلہ وار حملہ کئے گئے تھے۔باندی پور میں دہشت گردوں کا حملہ‘فوجی سپاہی کا اغوا اور صحافی شجاعت بخاری کی دہشت گرد حملہ میں موت ‘ جو وادی میں جاری کوشش کو سبوتاج کرنے کا ایک حصہ ہے۔

تقریبا ایک صدی بعد کشمیر میں پہلے صحافی کا قتل ہوا ہے جو دراصل اظہار خیال کی آزادی اور جمہوریت پر کارضرب ہے‘ اور حملہ وادی بحران کا شکار کشمیر کی عوام کو پریشانیوں سے نکالنے کے لئے کی جارہی کوششوں پر بھی حملہ مانا جائے گا۔سیاسی پیچ وخم سے بالاتر ہوکر بخاری کشمیر میں اور کشمیر کے لئے دونوں کی ایک آواز تھے۔وہ پاکستان ک ساتھ ٹریک ٹو بات چیت کا حصہ تھے۔

ا ن کا قتل اور جون14کے روز پیش ائے دیگر دہشت گرد واقعات سے دو پیغام مل رہے ہیں۔پہلا یہ ہے کہ برہم پرتشدد عمل اختیار کرنے والوں کو آزادی کے ساتھ اظہار خیال کرنے والی آواز برادشت نہیں ہوتی ۔ اور دوسرا یہ ہے کہ کشمیر کے سیاسی پس منظر کو غیر علاقائی لوگوں اپنے قبضے میں کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔

ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ عید کے بعد بھی جنگ بندی پر روک لگایاجائے گا یا نہیں۔حکومت ہند اور سکیورٹی تنصیبات نے کشمیر میںآگے جانے کے لئے اگلے قدم کی وضاحت کی ہے‘ وہ کسی بھی صورت میں دہشت گرد کو ایسا نہیں چھوڑ دیں گے۔

یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کے باوجود رمضان کی جنگ بندی کوجموں کشمیر میں امن قائم رکھنے کے لئے برقرار رکھا گیا۔

پچھلے ماہ سکیورٹی فورسس کی جانب سے جاری اپریشن پر بھی روک لگادی گئی جو ہندوستان او رپاکستان کی فوجوں کے ڈی جی ایم اوس کے درمیان میں بات چیت کا سبب بھی بنی اور ایل او سی 2003کی جنگ بندی معاہدے کے تحت انتظام کو بھی قطعیت دی گئی۔

اس ماہ کے اوائل میں سلسلہ وار عوامی میٹنگ کے دوران مفتی نے کہاکہ سکیورٹی اپریشن پر روک کشمیر کی ’’ عوام کے لئے ایک بڑی راحت بنا ہے‘‘ اور میں اس جنگ بندی میں توسیع کے لئے بھی کہوں گی۔ مذکورہ بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کو اپنے ساتھی کی درخواست کو قبول کرنا ہوگا۔

ریاست میں2016میں برہان وانی کی موت کے سبب بڑے پیمانے پر تشدد ہورہا ہے ۔ رمضان میں کی گئی جنگ بندی سے کچھ حد تک راحت نظر آرہی ہے۔ تشدد اور ددہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کی جارہی کوششوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے یونے کی ضرورت ہے