’’ ایوب کے کپڑے پھاڑدئے گئے ‘ اس کے ساتھ تشدد کیاگیا ‘ اس کی نعش کو کئی سو میٹر تک گھسیٹ کر کونے میں ڈال دیاگیا‘‘
سری نگر: علیحدگی پسند لیڈر میر وعظ عمر فاروق کی مضبوط گڑ اور سری نگر کے قلب میں واقع جامعہ مسجد پر 27رمضان کے موقع پر بندوبست کے لئے متعین کیاگیا تھا۔ادھی رات ختم ہونے کے ساتھ ایک ہجوم سابق کمانڈر حزب المجاہدین لیڈر جو اسلامی خلیفہ بناہوا ہے ذاکر موسی کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے اگے بڑھے اور ڈی ایس پی کو اس قدر پیٹا کے ان کی موت واقع ہوگئی۔ایوب کے کپڑے پھاڑدئے گئے ‘ اس کے ساتھ تشدد کیاگیا ‘ اس کی نعش کو کئی سو میٹر تک گھسیٹ کر کونے میں ڈال دیاگیا۔
ضلع اننت ناگ کے اچابل میں چھ پولیس عہدیداروں بشمول اسٹیشن ہاوز افیسر( ایس ایچ او)کو گھیر کر پچھلے ہفتے ہلاک کردیاگیا۔اس کے بعد ان کی نعشوں کو بھی مسخ کردیاگیا۔ جب پولیس مذکورہ پولیس جوانوں کو اپنی تحویل میں لینے کے لئے گئے تو پولیس ٹیم پر پتھراؤ کیاگیا‘ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دوروز بعد ایس ایچ او کی جانب سے دی گئی دعوت افطار میں اسی مقام سے دو سو لوگوں نے شرکت کی۔
پچھلے سال اپریل میں شوپیان علاقے میں لفٹنٹ عمر فیاض کو اس وقت ہلاک کردیا گیا جب وہ ایک گھریلو تقریب میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ اسی مہینے میں چار پولیس جوانوں او ردو غیرمصلح سپاہیوں کی گاڑی پر دہشت گردوں کی فائیرنگ میں ہلاک ہوگئے۔پچھلے کچھ مہینوں میں دہشت گردوں نے متعددغیرمصلح شہریوں کو ہلاک کیا اور بینکوں میں بھی لوٹ مار مچائی۔
سری نگر میں بربریت کا واقعے کو دادری میں ہوئی بربریت کی طرح دیکھا جانا چاہئے۔دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلم پولیس افسر کی ہلاکت کو گجرات کے مسلمانوں کی ہلاکت کے طور پر سمجھنا ضروری ہے۔پچھلے تین دہوں میں کشمیر موت کی وادی میں تبدیل ہوگیا ہے۔