کسی طرح ختم نہیں ہورہا ہے اجمیر او ربریلی کے درمیان اٹھنے والا قضیہ

پریس او رسوشیل میڈیاپر جاری ہے الزامات او رجوابی الزامات
نئی دہلی۔ رجب کے مہینے میں پاکستان کے مذہبی تنظیم دعوت اسلامی کے سربراہ الیاس عطارضوی کی جانب سے متنازعہ بیانات جاری ہونے کے بعد صوفیوں اور بریلویوں کے درمیان جو افسوسناک مناظر اور مباحثہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ شروع ہوا تھاوہ ہنوز جاری ہے بلکہ اب ہمارے ملک کے ہندی اخبارات میں بھی اس کو کافی اہمیت کے ساتھ شائع کیاجارہا ہے ۔

واضح ہوکہ پچھلے دنوں ایک ویڈیو وائیرل ہونے کے بعد دوسرے مسلک کے لوگوں نے دہلی ہائی کورٹ میں درخواست گزاری تھی او رپھر عرس رضوی کے موقع پر یہ قضیہ اس لئے مزیدبھڑکاکہ بریلویوں سے اجمیر کی درگاہ کا بائیکاٹ کئے جانے کی خبر پریس میں جلی حروف  میں شائع ہوئی

جس بعد ایک وضاحت بھی جاری ہوئی جس میں کہاگیاکہ اجمیر کی درگاہ میں ہونے والی بھیڑ بھاڑ او رخدام کے سلوک دیکھتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو جانے سے منع کیاگیا ہے۔ مگر اس معاملے نے اس وقت مزیدرنگ پکڑا

جب درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کے سجادہ نشین کا ایک بیان پریس کے ایک سیکشن میں شائع ہوا ۔

اس کے بعد انقلاب کے نمائندے نے ٹیلی فون کے ذریعہ سیدسرور چشتی سے اس بارے میں دریافرت کیاتو انہوں نے کہاکہ ہندی کے اخبارات میں جو بیان چھپا ہے وہ ان کا نہیں ہے۔

انہو ں نے کہاکہ ہم مسلک حنفی پر عمل پیرا ہیں او رحنفی مسلمان ہیں ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہے کہ محبان اہلبیت اور سادات بھی ہیں لہذا اپنے جد سے کتعلق سے کوئی بھی بات برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔

انہو ں نے کہاکہ پاکستان کی دعوت اسلامی کی کہی ہوئی سب ہی باتوں پر ہم نے صدائے احتجاج بلند کی او رمیرے فرز ند علامہ سید کامران چشتی نے ایک ویڈیوبیان بھی جاری کیا۔

چار ویڈیوکلپ پر مشتمل یہ بیان صرف بیان نہیں تھا بلکہ اہلسنت والجماعت کی کتابوں سے تاریخی حقائق میں ثبوت پیش کئے گئے تھے