کرناٹک میں بی جے پی سے جنتادل سیکولر کا خفیہ معاہدہ…!ہ

معلق اسمبلی کی سازش، کانگریس کے 30% ووٹ پر نظر، کرناٹک مسلم متحدہ محاذ کی برہمی

حیدرآباد۔23 اپریل (سیاست نیوز) کرناٹک میں بی جے پی اور جنتادل سکیولر میں خفیہ معاہدہ عوام میں بے نقاب ہوچکا ہے۔ دونوں پارٹیوں نے کانگریس کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے مشترکہ حکمت عملی تیار کرلی ہے کہ جس پر آئندہ دو ہفتوں میں شدت کے ساتھ عمل آوری کی جائے گی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق پرچہ نامزدگی کے ادخال کی تاریخ گزرتے ہی دونوں پارٹیاں اپنے کیڈر کے ساتھ شہری علاقوں سے دیہی سطح تک مخالف کانگریس مہم میں مصروف ہوجائیں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ جنوبی ہند میں قدم جمانے کے لیے بی جے پی کا واحد سہارا جنتادل سکیولر ہے جس طرح ٹاملناڈو میں انا ڈی ایم کے کی تائید سے پارٹی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اسی طرح کرناٹک میں جنتا دل سکیولر کا ہاتھ تھام لیا گیا۔ خفیہ معاہدہ کو راز میں رکھا گیا تاکہ سکیولر ووٹ خاص طور پر مسلمانوں کو تاریکی میں رکھا جائے۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی نے کرناٹک کے بارے میں جو داخلی سروے کیا ہے اس کے مطابق کانگریس سادہ اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار حاصل کرسکتی ہے۔ جنتادل سکیولر کی مدد سے بی جے پی کم از کم 25 تا 30 فیصد مسلم ووٹ کانگریس کے کھاتے سے نکالنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق کم از کم 20 تا 25 نشستوں کے نتائج پر اثر پڑے گا۔ بی جے پی کو یقین ہوچکا ہے کہ وہ تنہا اپنی طاقت پر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی لہٰذا معلق اسمبلی کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ اسے 70 تا 80 نشستیں حاصل ہوں گی اور 40 نشستوں کے ساتھ جنتادل سکیولر اس کی تائید کرتے ہوئے اقتدار میں حصہ دار بن سکتی ہے۔ بی جے پی اور جنتادل سکیولر کا یہ خفیہ معاہدہ کس حد تک اثرانداز ہوگا اس کا فیصلہ کرناٹک کے سکیولر رائے دہندے کریں گے۔ کرناٹک کے بیشتر میڈیا حلقوں میں خفیہ معاہدے کے سلسلہ میں خبریں شائع ہوچکی ہیں۔ سیاسی مبصرین سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کے فرزند ایچ ڈی کمار سوامی کو بی جے پی کی بی ٹیم سے تعبیر کررہے ہیں۔ 2006ء میں دونوں پارٹیاں مخلوط حکومت کا تجربہ رکھتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کرناٹک کے مسلم متحدہ محاذ اور دیگر غیر سرکاری اور مذہبی اور تنظیموں اور اداروں نے ووٹوں کی تقسیم روکنے کے لیے کانگریس کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ دیوے گوڑا اور ان کے فرزند نے جب بعض اقلیتی قائدین کو پارٹی کی تائید کے لیے مدعو کیا تو ان سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ رائے دہی سے قبل تحریری طور پر تیقن دیں کہ مخلوط حکومت کی صورت میں بی جے پی کی تائید نہیں کی جائے گی۔ کمار سوامی اور دیوے گوڑا نے کئی اضلاع کا دورہ کیا لیکن معلق اسمبلی کی صورت میں پارٹی کی حکمت عملی کے بارے میں سوالات کو یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ اس کا فیصلہ نتائج کے بعد ہوگا۔ جنتادل سکیولر کے اس موقف کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو یقین ہوچکا ہے کہ دیوے گوڑا نے اقتدار کے لیے بی جے پی سے معاہدہ کرلیا۔ اگر جنتادل سکیولر واقعی سکیولر ہوتی تو اس کے قائدین برسر عام یہ اعلان کرتے کہ معلق اسمبلی کی صورت میں ب جے پی کی تائید نہیں کی جائے گی۔ مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے انتخابی مہم کے دوران جے ڈی ایس قائدین سے تحریری طور پر تیقن دینے پر اصرار کا فیصلہ کیا ہے۔ جنتادل سکیولر کو ٹی آر ایس اور اس کی حلیف مجلس کی تائید نے بھی کرناٹک کے مسلمانوں میں ناراضگی پیدا کردی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کو اقتدار سے روکنے کے لیے کے سی آر نے بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ حالیہ عرصہ میں تیسرے محاذ کی تشکیل کے نام پر جس انداز سے کے سی آر نے سرگرمیوں کا آغاز کیا اس سے بی جے پی سے قربت اور بھی واضح ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا بنرجی اور نوین پٹنائک نے تیسرے محاذ کی کے سی آر کی سرگرمیوں سے خود کو علیحدہ کرلیا۔ جنتادل سکیولر کے حق میں انتخابی مہم چلانے کے لیے ٹی آر ایس اور مجلس کے قائدین کو مدعو کیا گیا ہے۔ دوسری طرف تلگودیشم پارٹی نے تلگو رائے دہندوں والے حلقوں میں بی جے پی کے خلاف مہم میں شدت پیدا کردی ہے جس کا فائدہ راست طور پر کانگریس کو ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹی آر ایس اور تلگودیشم کے سبب تلگو عوام کے ووٹ بھی منقسم ہوجائیں گے۔