کرناٹک اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کو مسلم جماعتوں سے نقصان ممکن

مسلمانوں کو منظم حکمت عملی کے ذریعہ ارکان کی تعداد بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت
حیدرآباد۔22مارچ(سیاست نیوز) کرناٹک اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدارو ں کو مسلم امیدواروں سے نقصان ہوا کرتا تھا اور اب ان مسلم امیدواروں کو مسلم جماعتوں سے بھی نقصان پہنچے گا ۔ کرناٹک انتخابات کے دوران مسلم سیاسی جماعتوں کی جانب سے قسمت آزمانے کی کوشش اور اعلانات سے قبل ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کہیں کرناٹک اسمبلی میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کی کوشش کے نام پر ملت کا اجتماعی نقصان کرنے تو نہیں جا رہے ہیں۔ مجوزہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران حلقہ جات اسمبلی کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ریاست کرناٹک میں اگر مسلمان منظم حکمت عملی اور منصوبہ بندی اختیار کریں تو اسمبلی میں مسلم ارکان اسمبلی کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے لیکن فرقہ پرستوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو دیکھتے ہوئے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران نہ صرف مسلم نمائندگی میں اضافہ کی کوششوں کے نام پر ان کی نمائندگی کو کم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے بلکہ ان کے ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ مسلمانوں کی سیاسی شناخت کے خاتمہ کو یقینی بنانے کی حکمت عملی تیار کی جانے لگی ہے۔کرناٹک اسمبلی انتخابات میں منگلور(شمال)‘ منگلور‘ گلبرگہ (شمال) ‘بیجا پور سٹی‘ نرسمہا راجہ (میسور) ‘ چامراج پیٹ‘ ہیبل‘ بیلگام (شمال) ‘ شیواجی نگر‘ بیدر‘ رائچور‘ تمکور سٹی‘ شانتی نگر‘ خانہ پور اور گنگا وتی ایسے حلقہ جات اسمبلی ہیں جہاں مسلم امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے لیکن تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جانے کے سبب مسلم ووٹوں کی تقسیم کا راست فائدہ غیر مسلم امیدوار کو ہوتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ کرناٹک کے ذمہ داروں کی جانب سے اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان اسمبلی انتخابات میں کسی بھی طرح سے ووٹوں کی تقسیم کو نہ ہونے دیا جائے لیکن اس مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے آلۂ کار سیاسی جماعتوں کو استعمال کرنے کی جو حکمت عملی تیار کی ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ مسلم نمائندگی جو اسمبلی میں ہے اسے بھی محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔مجوزہ انتخابات کے متعلق سیاسی ماہرین کا کہناہے کہ کرناٹک میں جو حکمت عملی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائی برادری کی جانب سے اختیار کی جا رہی ہے

 

اس حکمت عملی پر ہندوتوا قوتیں گہری نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں اور اقلیتوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کو کمزور کرنے کے لئے ایسی قوتوں کا استعمال کیا جانے لگا ہے جو قومی سطح پر مسلم نمائندہ چہرے تصور کئے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ ایسے لوگوں کو استعما ل کیا جا رہاہے جو کہ عام مسلمانوں کی دولت اپنے پاس رکھتے ہوئے انہیں حلال منافع کا لالچ دیتے ہوئے معصوم لوگوں کی جانب سے جمع کی گئی دولت کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ مسلم خواتین کے حقوق اور مسلمانوں کے نام پر کی جانے والی سیاست سے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ہندوتوا کو فائدہ حاصل ہونے کی پیش قیاسی کے بعد وبھی بعض گوشوں کی جانب سے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے مسلم سیاسی جماعت یا نمائندہ ہونا ناگزیر ہے۔ بتایاجاتاہے کہ اگر مسلمان واقعی سنجیدہ اور منظم حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو ایسی صورت میں مذکورہ 15اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر حلقہ جات اسمبلی میں مسلم امیداروں کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں تو ان کی کامیابی کے امکانات موہوم ہوجاتے ہیں ۔سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے منظم حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں ریاست کرناٹک کی اسمبلی میں 15 مسلم ارکان اسمبلی کو منتخب کروایا جا سکتا ہے لیکن گذشتہ 10 برسوں کے دوران ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرناٹک اسمبلی کی ان اسمبلی نشستوں پر اب تک جو نقصان ہوا ہے وہ صرف اور صرف مسلم امیدواروں کے درمیان مسلم ووٹوں کی تقسیم کا نتیجہ رہا ہے اور ان منفی نتائج کے خاتمہ کیلئے مسلم سماج کی سرکردہ شخصیات کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو دیکھنے کے بعد اب یہ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے کہ نہ صرف مقامی مسلمانوں کو امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا جائے بلکہ بیرونی سیاسی جماعتوں کو بھی متحرک کرتے ہوئے انہیں ووٹوں کی تقسیم کیلئے استعمال کیا جائے۔تفصیلات کے مطابق کانگریس‘ جے ڈی ایس اور کے جے پی کی جانب سے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارتے ہوئے گذشتہ انتخابات میں نقصان پہنچایا گیا تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کو مسلم رائے دہندوں کی اکثریت والے ان حلقہ جات اسمبلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنایاگیا تھا لیکن اب کے جے پی نہیں ہے اور کے جے پی کی مکمل قیادت اور کارکن خود بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہیں تو ایسی صورت میں مزید چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔