کثرت ازدواج ، طلاق اور حلالہ کے دستوری جواز کو چیلنج

وزارت اقلیتی اُمور سے جواب طلب ، پرسنل لاء پر کمیٹی رپورٹ پیش کرنے مرکز کو سپریم کورٹ کی ہدایت
نئی دہلی 28 مارچ ( سیاست ڈاٹ کام ) سپریم کورٹ نے آج مرکز کو اس کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے جو قبل ازیں مذہبی اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے شادی ، طلاق اور گود لینے کے بارے میں نجی قوانین کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے مقصد سے تشکیل دی گئی تھی ۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس یو یو للت پر مشتمل بنچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کو جو مرکز کی طرف سے حاضر ہوئے ، اندرون چھ ہفتے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کہا ۔ بنچ نے وزارت اقلیتی اُمور کو سائرہ بانو نامی خاتون کی درخواست کا جواب دینے ہدایت دی ۔ انھوں نے مسلمانوں میں کثرت ازدواج ، طلاق بائن اور نکاح حلالہ کا جو طریقہ کار رائج ہے اسکے دستوری جواز کو چیلنج کیا ہے ۔ طلاق بائن میں کوئی مسلمان مرد اپنی بیوی کو پاکی کی حالت میں ایک سے زائد طلاق دے سکتا ہے یا پھر ایک ہی نشست میں وہ تین مرتبہ طلاق دے کر بیوی کو اپنی زوجیت سے خارج کرسکتا ہے ۔ اس دوران بنچ نے عدلیہ کی رجسٹری کو اس مسئلہ پر درخواست کے عدالتی ریکارڈس کی نقل اندرون چھ ہفتے فراہم کرنے کی ہدایت دی ۔ عدالت نے پہلے ایک علحدہ درخواست کی حیثیت سے اس کا نوٹ لیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے اوائل ماہ میں سائرہ بانو کی درخواست پر مرکز سے جواب طلب کیا تھا جس میں انھوں نے مسلم پرسنل لا عمل آوری ایکٹ 1937 ء کی دفعہ 2 کے دستوری جواز کو چیلنج کیا تھا ۔ انھوں نے کہاکہ اس دفعہ کے ذریعہ کثرت ازدواج ، طلاق ثلاثہ اور نکاح حلالہ کو تسلیم کرکے درست قرار دیا گیا ہے ۔ عدالت نے اس معاملہ کو بھی ایسی ہی درخواست کے ساتھ یکجا کردیا تھا ۔ سائرہ بانو نے کہا کہ اسے شوہر اور سسرال والوں سے جہیز کے مطالبات اور ظلم کا سامنا ہے ۔ اسے خواب آور گولیاں دی گئیں جس سے یادداشت جاتی رہی اور اسے نیم بیہوشی کی حالت میں رکھا گیا ۔ ان سب نے اسے بری طرح بیمار بنادیا اور ایسے نازک وقت میں اس کے شوہر نے تین مرتبہ طلاق دیدی ۔ درخواست گذار نے مسلم میریج ایکٹ 1939  کو چیلنج کیا اور کہا کہ یہ ہندوستانی مسلم خاتون کو ایک سے زائد نکاح سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے ۔ سائرہ بانو نے اپنی درخواست میں کہا کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلم خواتین کے خلاف جنسی امتیاز بالخصوص من مانی طلاق اور پہلی شادی کیلئے دستور نے جو تحفظ فراہم کیا ہے اس کا لحاظ رکھے بغیر مسلم شوہروں کی دوسری شادی کا سپریم کورٹ کی جانب سے جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ مسلم خواتین کے ہاتھ بندھے ہیں جبکہ طلاق معاملہ میں مرد کامل اختیارات کا حامل ہے اور جب چاہے ایسا کرسکتا ہے ۔ اس طرح کا امتیاز اور عدم مساوات کا تین مرتبہ طلاق کے ذریعہ اظہار ہوتا ہے اور آج کی ترقی یافتہ 21 ویں صدی میں یہ بالکل فرسودہ معلوم ہوتا ہے ۔ اسکے علاوہ ایک مرتبہ عورت کو طلاق دیدی گئی اسکے بعد شوہر نے اگر حالت نشہ میں طلاق دی ہو تب بھی وہ بیوی کو اس وقت تک رجوع نہیں کرسکتا جب تک عورت حلال نہ ہوجائے ۔ اس کیلئے عورت کو دوسرے مرد سے شادی کرنی ہوگی اور پھر وہ طلاق دے تو اس کے بعد ہی پہلا شوہر اس سے شادی کرسکتا ہے۔