سری نگر۔ریاست جموں او رکشمیر کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ایس پی وید کو لکھے ایک مکتوب نے کرائم برانچ نے کہا ہے کہ آصفیہ کے کپڑوں کوجو خون اور کیچڑ میں لت پت تھے فارنسک لیباریٹری کو روانہ کرنے سے قبل کتھوا پولیس نے دھویا ہے۔
جموں کشمیرکرائم برانچ نے انکشاف کیا ہے کہ کتھوا میں پیش ائے اٹھ سال کی معصوم لڑکی کی عصمت ریزی او رقتل سے متعلق تحقیقات میں مقامی پولیس نے ثبو ت مٹانے کی متعدد مرتبہ کوشش کی ہے۔
مذکورہ اندوہناک واقعہ کی تحقیقات کررہی کرائم برانچ نے ایس پی وید ڈاکٹرجنرل آف پولیس کو لکھے مکتوب میں کہاہے کہ آصفیہ کے کپڑے جو خون او ر کیچڑ میں لت پت تھے اس کو کتھوا پولیس نے فارنسک لیباریٹری بھیجنے سے قبل دھویا ہے۔
اس مکتوب میں کرائم برانچ نے لکھا ہے کہ پولیس نے کبھی بھی جائے واردات کا محاصرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کو محفوظ کیا‘ اور مزید لکھا کہ آصفیہ کے والدین کی جانب سے شکایت کے باوجود بھی گاؤں میں تلاشی نہیں کی گئی۔
مسٹر وید نے این ڈی ٹی وی سے کہا ہے’’ کیونکہ یہ تحقیقات کا حصہ بن گیا ہے کاروائی ضرورکی جائے گی‘‘۔ ابتدائی تحقیقات کے ساتھ ہی ہیرا نگر پولیس اسٹیشن سے تعلق رکھنے والے دو اسپیشل افسروں کو مبینہ طور پر اس کیس میں ملوث ہونے کی وجہہ سے پہلے ہی گرفتار کیاجاچکا ہے۔
جنوری 10کے روزراسنا گاؤں سے آصفیہ کا اغوا کرلیاگیاتھا۔ تحقیقات کے مطابق قتل سے ایک ہفتہ پہلے تک متوفی آصفیہ کو نشہ کرایا گیا اور قیدی بناکر رکھا گیاتھا۔
پچھلے ہفتہ ہوئی دوپولیس والوں کی گرفتار ی کے خلاف ہندو ایکتا منچ نے ایک احتجاج منظم کیاتھا جس میں بی جے پی کے دوسینئر منسٹرس چندرا پرکاش گپتا اور لال سنگھ نے شرکت کی تھی۔
مسٹر گنگا نے کرائم برانچ کی تحقیقات کو’’ جنگل راج‘‘ قراردیاتھا اور پولیس کو مزید گرفتاریاں نہ کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔
ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر سنگھ نے کہاکہ ’’اگر کوئی لڑکی مرتے ہے تو اس کا کیا؟یہاں پر کئی لڑکیاں مرتی ہیں‘‘۔انہوں نے چار سے زائد لوگوں کے جمع پر عائد احتیاطی اقدامات کی خلاف ورزی کرنے کے لئے بھی لوگوں کو اکسایاتھا۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعہ ہندواکثریتی گاؤں سے مسلمانوں کو بھگانے کی کوشش کا حصہ تھا ۔
پولیس کا دعوی ہے کہ موبائیل ٹاؤر ڈاٹا اورکال کی تفصیلات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملزم موقع وارادت پر موجود تھااوریہ بھی کہنا ہے کہ لڑکی کے اغوا سے کچھ دن قبل کتھوا کی ایک میڈیکل شاپ سے اسپیشل پولیس افیسر ملزمین نے آصفیہ پر استعمال کرنے کے لئے نشہ وار دوا بھی خریدی تھی۔
منظم جرم کا نظریہ تحقیقات میں شامل کرتے ہوئے تحقیقاتی عہدیداروں نے دعوی کیا ہے کہ کچھ احتجاجیوں اور قتل کے درمیان بھی کڑی ہے۔
سانجی رام ریٹائرڈ ریونیو افیسر کاہندو ایکتا منچ چلانے میں مرکز ی رول رہا ہے۔ عہدیدارو ں کا کہنا ہے کہ جس مقام پر آصفیہ کو رکھاگیاتھا وہاں کا وہ مالک ہے۔
مسٹر رام نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کررہے ہیں کہ کرائم برانچ انہیں پھنسانے کاکام کررہی ہے کیونکہ انہوں نے گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے متعلق اعتراض جتایاتھا۔ آصفیہ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ تعمیر کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
گاؤں والوں نے مسٹر رام کی ذاتی جائیداد پر آصفیہ کی نعش کو دفن کرنے سے روک دیاتھا۔بالآخر معصوم لڑکی کو جنگل میں کئی کیلومیٹر دو دفن کیاگیا۔