وزیراعظم کے پارلیمانی حلقہ میں اقلیتوں میں انہدامی کاروائی کاخدشہ دوبارہ
واراناسی۔وزیراعظم نریند رمودی کے پارلیمانی حلقہ واراناسی میں جہاں پر اتوار کے روز رائے دہی ہوئی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں مشہور بھگون شیوا کا مندر کاشی وشواناتھ بارہ میں سے ایک’جیوتر لنگاس‘دیکھا ہے۔
ایک کاشی وشواناتھ مندر کوارڈیڈار مندر سے جوڑنے سے کے لئے شروع کیاگیا ہے جو ماضی میں تنگ گلیوں میں چھپا ہوا تھا‘ جس کو گنگا کے ہلیا بائی گھاٹ سے اب جوڑا جارہا ہے۔
پچھلے کچھ ماہ میں اس کے لئے کئی دوکانوں اور مکانات کو زیر قبضہ لے کر صاف کردیاگیا ہے۔ مزید کچھ سو دیگر گھروں کو اپنے تحویل میں لے کر منہد م کیاجارہا ہے کہ مگر وزیراعظم کے ملٹی کروڑ کے اس خواب والے پراکٹ کو لوگ ”ایک بہترین اور بہادری والا قدم“ نہیں مان رہے ہیں جس کے ذریعہ ہندو کی اہم مندر کو آنے والے بھگتوں کے لئے آسان راہ فراہم کرے گا۔
مگر جنھیں یہاں سے جبری طور پر ہٹانے اور دوکانوں کو نکالنے کاکام کیاجارہا ہے وہ الگ کہانی ہے۔
مقامی بی جے پی لیڈر ان کے مطابق ”مالکوں کو چارگناہ زیادہ معاوضہ کے ساتھ متبادل جگہ بھی فراہم کی گئی ہے۔
اس کے متعلق کوئی شکایت نہیں کررہا ہے کیونکہ تمام کے لئے بہتر ہے“۔
مگر ایک سیول سوسائٹی گروپ سانجھا سنسکرتی منچ نے کہاکہ شہری انتظامیہ کے پاس ناتو کوئی بلیوپرنٹ ہے اور نہ ہی وہ منصوبہ شیئر کرنے کی درخواست پر ردعمل پیش کررہا
ہے۔دی ٹربیون سے بات کرتے ہوئے ولبھ چاری پانڈے نے کہاکہ ”ہم نے آرٹی ائی کے تحت جانکاری مانگی مگر کوئی ردعمل نہیں ہے۔
یہاں تک معاوضہ کی ادائی کے لئے سرکل کی قیمتوں کا تبدیل کیاگیا ہے“۔
انہوں نے کہاکہ کئی نسلوں سے رہنے والے تین سو گھر وں کے لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کردیاگیاہے۔
مذکورہ گھروں کے انہدام سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ اس میں کئی قدیم منادر بھی شامل تھے جس کے متعلق انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان پر قبضے کرلئے گئے تھے اور جس کو عام لوگوں کے لئے کھول دیاجائے گا۔
مگر علاقے کی صفائی میں گیان واپی مسجد عمارت کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہندو عقیدت مندوں کے راستے میں ایک صدیوں پرانی عمارت ہے۔
اب اس کے متعلق اقلیتی کمیونٹی میں خوف پیدا ہورہا ہے اس کو بابری مسجد 2.0کی شروعات بن جائے گا“۔
اگر صفائی والے علاقے میں جو مندر او رمسجد کا راستہ کھڑے ہوجائیں تو ایسے کئی آوازیں آپ سنیں گے جس میں کہاجارہا ہے کہ ”وہ دیکھو۔ وہ ایک مسجد ہے۔
جیوترلنگا کے ساتھ جو حقیقی مندر تھا اس کو ڈھاکر یہ بنائی گئی ہے۔
مذکورہ جیوتر لنگا اب بھی مسجد کے اندر موجودہے“۔ ان تمام باتوں سے اقلیتی کمیونٹی خوفزدہ ہے۔
اس کے علاوہ وہ نعرہ”ایودھیاتو ایک جھانکی ہے‘ کاشی‘ متھرا بھی باقی ہے“ بھی معمرلوگوں کے کانوں میں گونج رہا ہے جو اپنے نئی نسلوں کو بتارہے ہیں۔
مسلم کمیونٹی کے لوگ یاد کررہے ہیں کس طرح اس وقت کی کلیان سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے بابری مسجد کے اطراف واکناف کے علاقے کو ایودھیا کو”خوبصورت“ بنانے کے نام پر صاف کیاتھا۔
عہدیدار او ر بی جے پی لیڈر س اس خوف کو دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سال1992ایودھیا واقعہ حوالے پر جواب میں وہ کہہ رہے ہیں ”کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
اب وقت بدل گیا ہے‘ بابری مسجد کی شہادت کے وقت جو کچھ ہوا تھا؟وزیراعظم مودی کی قیادت میں مسجد کوکوئی نقصان نہیں ہوگا“۔
وارناسی نے منادر کی تباہی دیکھی ہے۔
ریکارڈس کے مطابق کاشی وشواناتھ مند ر کی نشاندہی 1490میں ہوئی تھی تاریخ میں مذکورہ مندر کئی مرتبہ منہدم کی گئی او رکئی مرتبہ تعمیرکی گئی ہے۔
آخری مرتبہ اورنگ زیب مغل حکمرانوں کے آخری حکمران نے مندر کو مبینہ طور پر منہدم کیاتھا‘ جس کے بعد انہوں نے گیان واپی مسجد کی تعمیر کی تھی۔
موجودہ مندر مراٹھا حکمران اہلیا بائی ہولکر برائے اندور نے 1780میں مسجد سے متصل تعمیرکی تھی