تشدد میں پاکستان کے حامی ملوث ،ونئے کٹیار کا دعویٰ۔اقلیتی نوجوان ہلاک ہوتا تو میڈیا کا انداز مختلف ہوتا : گری راج
لکھنؤ 30 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے کاسگنج تشدد پر آج اپنی خاموشی توڑتے ہوئے اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا۔ مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے جبکہ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے دعویٰ کیاکہ اگر اقلیتی طبقہ کا نوجوان ہلاک ہوتا تو میڈیا کچھ مختلف انداز اپنایا ہوتا۔ متنازعہ تبصروں کے لئے پہچانے جانے والے بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ ونئے کٹیار نے یہ کہتے ہوئے ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا کہ پاکستان کی حمایت کرنے والے چند اشرار ترنگے کی توہین کے لئے کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے کاسگنج فرقہ وارانہ تصادم پر اپنے پہلے ریمارک میں کہاکہ ’’ہماری حکومت ہر ایک شہری کو سکیورٹی فراہم کرنے کی پابند ہے۔ ریاست میں نیراج اور افراتفری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اُنھوں نے تشدد کے سازشیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا انتباہ دیا۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے کہاکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ تشدد منصوبہ بند تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ ’’اگر مہلوک چندن گپتا کے بجائے کوئی محمد اسمٰعیل ہوتا تو میڈیا میں کچھ مختلف بحث ہی ہوتی تھی۔ ہمیں اس انداز فکر کو تبدیل کرنا ہوگا‘‘۔ اُنھوں نے کہاکہ ’’ہمیں اطلاع ملی ہے کہ کسی سرکاری افسر نے بعض ریمارکس کئے ہیں اور پوچھا ہے کہ پاکستان مردہ باد کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان مردہ باد کا نعرہ کیوں نہ لگایا جائے۔ ہم یہ نعرے اس لئے لگاتے ہیں کہ پاکستان ہمارے سپاہیوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ اور سرحد پار دہشت گردی پھیلارہے ہیں۔ واضح رہے کہ بریلی کے ضلع مجسٹریٹ راگھویندرا وکرم سنگھ نے فیس بُک پوسٹ میں کہا تھا کہ ’’یہ عجیب روایت بن گئی ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں گھومتے ہوئے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے جائیں‘‘۔ وکرم سنگھ اپنے فیس بُک پیج پر یہ سوال بھی کیاکہ ’’آخر کیوں؟ کیا وہ (مسلمان) پاکستانی ہیں؟‘‘ ونئے کٹیار نے دعویٰ کیاکہ ’’پاکستان کے حامیوں‘‘ کی گولی لگنے سے گپتا کی موت ہوئی ہے۔ اس دوران مغربی اترپردیش کے کاسگنج ٹاؤن میں تشدد کی افواہیں پھیلانے اور گڑ پڑ پیدا کرنے والوں پر قابو پانے کے لئے ریاپڈ ایکشن فورس اور پی اے سی کی بھاری جمعتیں تعینات کردی گئی ہیں۔ ایک دوکاندار نے جس کی دوکان فرقہ وارانہ تشدد میں نذر آتش کردی گئی ہے کہاکہ ’’میں یہاں گزشتہ 20 سال سے رہتا اور کام کرتا ہوں۔ ہندو اکثریتی علاقہ میں واحد مسلم ہوں اور کبھی کوئی مسائل کا سامنا نہیں رہا تھا‘‘۔ اس دوران ایک درمیانی عمر کے شخص راہول اپادھیائے نے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ان افواہوں کو مسترد کردیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ فسادات میں وہ ہلاک ہوچکا ہے۔ ونئے کٹیار نے کہاکہ ’’قبل ازیں ضلع کاس گنج میں کوئی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوا تھا سب ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے لیکن اب یہ پتہ چلا ہے کہ چند اشرار پاکستان کی تائید کررہے ہیں‘‘۔